اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 13 رکنی لارجر بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے سنایا۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی موجودگی میں سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں فیصلہ سنایا گیا ہے۔
عدالت نے 13مئی کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن غیر آئینی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان سے محروم رکھ کر کسی پارٹی کو انتخابی عمل سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں قرار دیا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار ہے۔27جون کو الیکشن کمیشن نے ایک آرڈر پیش کیا، اس دستاویز میں کہا گیا کہ کچھ کاغذات نامزدگی ایسے تھے جن کی پارٹی وابستگی تھی۔ 80میں سے 40 افراد 15 دنوں میں طے کریں کہ کس جماعت سے تعلق رکھنا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب اراکین تحریک انصاف کا حلف نامہ جمع کرائیں۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔ انتخابی نشان سے محرومی کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں کرتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے اکثریتی فیصلے کی مخالفت کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے۔ پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔ وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔ جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں۔
چیف جسٹس اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی۔ آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے۔ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی۔ آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔
- جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 8رکنی بینچ جس میں جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور عرفان سعادت خان شامل ہیں، نے اکثریتی فیصلہ جاری کیا۔
- جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ سے اپنا اختلافی نوٹ دیا۔
- چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے الگ اختلافی نوٹ دیا۔
- جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے الگ اختلافی نوٹ دیا۔
فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے احاطے میں نعرے بازی کی جب کہ کمرہ عدالت میں موجود تمام افراد کھڑے ہو کر فیصلہ سنتے رہے۔ یاد رہے کہ فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد جمعرات کے روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت 13 رکنی ججز کا مشاورتی اجلاس ہوا، تھا جبکہ بدھ کے روز بھی تقریباً ایک گھنٹے سے زائد وقت تک مشاورتی اجلاس جاری رہا تھا۔
28فروری 2024کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے متفقہ تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، 4 ممبران نے نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ دیا تاہم ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آرٹیکل 51اور 106میں ترمیم تک نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹے کے بجائے خالی رکھی جائیں۔
سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاورہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ مارچ میں پشاور ہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی اپیل خارج کردی۔ بعد ازاں مئی میں معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے 6مئی2024کو پہلی سماعت میں ہی پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کردیا۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آئینی و قانونی تشریح کے سوالات مرتب کرتے ہوئے لارجر بینچ کی تشکیل کیلیے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل کمیٹی اجلاس میں اکثریتی فیصلے سے فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا اور پھر 13 رکنی فل کورٹ نے 6طویل سماعتوں کے بعد 9جولائی کو سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔