پیشِ لفظ
سرکار دو عالم ﷺ کی نظرِ کیمیا اثر نے صرف بڑے بڑے محدث، فقہاء، فلسفی اور سائنس دان ہی پیدا نہیں کیئے، بلکہ دنیا کے بڑے بڑے جرنیل بھی پیدا کیے، جن کی فنِ سپہ گری کا لوہا پوری دنیا نے مانا ہے۔ وہ ایسے جرنیل تھے کہ جس طرف بھی رخ کرتے کامیابی و کامرانی ان کی ہمرکاب ہوتی، اُس وقت کی دنیا ان کے حیرت انگیز کارناموں کو دیکھ کر انگشت بدندان ہو جاتی اور آج بھی ان کے کارنامے مشعل راہ ہیں۔
ان لوگوں نے صرف انسانوں کے خون سے زمین کو رنگین نہیں کیا، بلکہ اللہ کے باغیوں کی سرکوبی کرکے انسانیت کو امن وسکون اور رشد و ہدایت کی راہ دکھلائی اور پوری دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن گئی۔ ان جرنیلوں میں سے دنیا کے سب سے بڑے جرنیل سیدنا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حالاتِ زندگی تو اس سے قبل زیور طباعت سے مرصع ہوکر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں۔
سیدنا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ وہ جرنیل تھے جنہوں نے پوری زندگی کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا اور اسلام لانے کے بعد تاریخ اسلام میں نہیں، بلکہ تاریخ عالم میں اپنے کارناموں کے لازوال اور ابدی نقوش چھوڑے۔ پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ جنگ احد میں ان کی اسٹریٹیجی (Strategy) پہلے تو کامیاب رہی کہ اسلامی لشکر فاتح ہو کر اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا، لیکن مقابلہ چونکہ ایک رسول اور پیغمبر سے تھا لہذا مؤرخین کو لکھنا پڑا کہ:
”فشلت عبقرية خالد امام عبقرية رسول الله“
“خالد بن ولید کی عسکری عبقریت رسول اللہ ﷺ کی عسکری عبقریت کے مقابلہ میں ناکام ہو گئی۔”
یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، یہ اسلام کے ایک نہایت مشہور جرنیل موسیٰ بن نصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه کے حالاتِ زندگی پر مشتمل ہے۔ موسیٰ اپنے زمانہ کے ایک بہت بڑے کماندار اور جرنیل تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی جس طرف کا رخ کیا فتح و کامرانی نے ان کے قدم چومے۔ طارق بن زیاد ؒ فاتح اندلس انہی کے ایک غلام اور ماتحت افسر تھے اور انہوں نے ہی انہیں فتحِ اندلس کے لیے سرزمین اندلس بھیجا تھا اور طارق بن زیاد کی اندلس میں کامیابیوں کو دیکھ کر آخر کار یہ بھی ایک سال کے بعد ایک لشکر جرار لے کر اندلس پہنچ گئے اور اب ان دونوں جرنیلوں (طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْهما) نے چند ہی سالوں میں اندلس کا ایک وسیع علاقہ اور فرانس کے چند شہر فتح کر لیے۔
وہاں افریقہ اور عرب کے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو آباد کیا۔ یہودیوں کو اس زمانہ میں سرزمینِ اندلس میں مختلف قسم کی اذیتوں سے پریشان کیا جاتا تھا، ان کو اس پریشانیوں سے نجات دلائی اور مسلمانوں کے علاقوں میں ان کو آباد کیا گیا، تاکہ وہ عیسائیوں کے ظلم و تشدد سے محفوظ رہیں۔ ان دونوں جرنیلوں نے اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے جو کچھ کیا اور جس قدر مال غنیمت وہاں سے حاصل کر کے مرکزی حکومت کو دیا، افسوس ہے کہ مرکزی حکومت نے ان کی خدمات کی وہ قدر اور پذیرائی نہ کی جو کہ ان دونوں کا حق تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں جرنیل گوشئہ خمولت میں چلے گئے، بلکہ موسیٰ کو مختلف اذیتوں اور صعوبتوں سے دو چار ہونا پڑا، جس کی تفصیل اس کتاب میں دی گئی ہے۔
اس کتاب کا بیشتر مواد عربی اور انگریزی کتابوں کے علاوہ تاریخ اندلس حصہ اول سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب اگرچہ اندلس کی تاریخ پر لکھی گئی ہے، لیکن اندلس کی تاریخ ان دونوں جرنیلوں کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے، لہذا مؤلف نے ضمناً ان کے بھی مختصر حالات لکھے ہیں۔
امید ہے کہ یہ کتاب بھی “سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ” کی طرح قارئین کو پسند آئے گی۔
طالب دعا: ( حکیم ) محمود احمد ظفر سیالکوٹ
4 رمضان المبارک 21425 / 19 اکتوبر 2004 ء
============> جاری ہے ۔۔۔
مأخوذ از کتاب: موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه
ناقل: ٹیم ”صرف اسلام“ فیس بک گروپ