کنافہ کو رمضان المبارک کی سب سے اہم مٹھائیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہ ماہ مقدس کے تجربے کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کنافہ کے نام اور اس کی اصلیت کے بارے میں اختلاف ہے لیکن غالباً یہ نام عربی زبان کے لفظ “کنافہ” سے لیا گیا ہے۔ اس سے مراد ایک قسم کے بُنے ہوئے بال ہیں۔ یہاں آٹے کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ وہ بُنے ہوئے بالوں سے مشابہ ہوجاتا ہے۔ اپنے ذائقے اور نازک ساخت کی وجہ سے یہ عرب خطے میں سب سے مشہور میٹھیوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔
معاویہ کی کنافہ
بہت سی روایات میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ کنافہ اموی خاندان کے دور میں معروف تھی۔ اسے خاص طور پر پہلے اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے لیے بنایا گیا تھا۔ دمشق میں ان کے دور حکومت میں اسے سحری کے کھانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کنافہ کا پہلا ظہور لیونت میں ہوا تھا لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصے کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ تاہم کنافہ کے ساتھ معاویہ کا لفظ جڑ گیا ہے اور اسے ’’ کنافہ معاویہ‘‘ یعنی معاویہ کا کنافہ بھی کہا جاتا ہے۔
مصر میں اٹلس آف پاپولر ٹریڈیشن سنٹر کے محقق ڈاکٹر الشیماء الصعیدی نے اپنے اخباری بیانات میں کہا تھا کہ لیونٹ میں مٹھائیاں بنانے والوں نے قطائف کے قریب کنافہ ایجاد کیا تھا ۔ انہیں خاص طور پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا ۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر تھے۔ اسی وجہ سے کنافہ کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام جڑ گیا۔
الشیماء الصعیدی کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کھانے کا شوق تھا۔ انہوں نے اپنے ڈاکٹر سے روزے کی حالت میں بھوک محسوس کرنے کی شکایت کی تو ڈاکٹر نے ان کے لیے وہ کنافہ تجویز کیا جو وہ سحری کے دوران کھاتے تھے تاکہ رمضان المبارک میں دن کو بھوک نہ لگے۔
اس کہانی کے مطابق کنافہ ماضی میں بادشاہوں اور شہزادوں کی میزوں پر بطورخاص رکھا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ خاص طور پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایجاد ہوا تھا اس لیے اس کے ساتھ معاویہ کا نام بھی جوڑ دیا گیا۔ اس قصے کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک بار محل کے باورچی نے مائع آٹا بنایا تو چولہے پر باریک دھاگوں کی شکل میں آٹے کے پیالے میں ایک سکوپ آ گرا جس سے باورچی بہت متاثر ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اسے گھی میں ڈبو کر بھورے ہونے تک گرم کیا جائے۔ پھر باورچی نے اس پر شہد ڈال کر خلیفہ کو پیش کیا۔ بادشاہ نے اسے بہت پسند کیا۔
کتاب “منهل اللطائف في الكنافة والقطايف”
مصری عالم جلال الدین السیوطی (1445 – 1505 عیسوی) نے “منهل اللطائف في الكنافة والقطايف” کے نام سے ایک کتاب لکھی جو ان دو قسم کی مٹھائیوں کی مقبولیت کی نشاندہی کرتی ہے جو ان تاریخی ادوار میں رمضان المبارک کے ساتھ بہت زیادہ وابستہ تھیں۔ علامہ سیوطی نے “مسالک الابصار” کے مصنف ابن فضل اللہ العامری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو رمضان المبارک میں بہت زیادہ بھوک لگی تھی۔ انہوں نے اس کی شکایت طبیب محمد بن آثال سے کی تو اس نے ان کے لیے کنافہ بنایا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پھر سحری میں کنافہ کھانے لگے۔
فاطمی دور سے تعلق
تاہم بعض دیگر روایات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ مصری کنافہ کو لیونٹ سے پہلے بھی جانا جاتا تھا۔ یہ پہلی بار فاطمی دور میں ظاہر ہوا۔ خاص طور پر جب فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ رمضان المبارک میں قاھرہ میں داخل ہوئے تو قاھرہ کے لوگوں نے انہیں تحائف پیش کیے۔ اس وقت ان تحائف میں انہیں کنافہ بھی پیش کیا گیا۔
اس کہانی پر بعض علماء اور مورخین نے اعتراض کیا ہے۔ کُنافہ کی ابتدا کے بارے میں متعدد روایتوں کے مطابق کنافہ مٹھائی ترکوں سے تعلق رکھتی ہے۔۔ اس کا نام شرکسیہ زبان سے لیا گیا ہے۔ جہاں اسے “چنافا” کہا جاتا تھا۔ اس زبان میں چنا کا مطلب بلبل اور فہ کا مطلب رنگ ہے۔ اس طرح شرکسیہ زبان میں اس کا معنی بلبل کا رنگ ہے۔
قصر منیل میوزیم کی رپورٹ
منیل پیلس میوزیم نے گزشتہ سال 2024 میں رمضان المبارک کے ایک اہم ترین کھانے کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی تھی۔ یہ اہم ترین کھانا کنافہ تھا۔ اس رپورٹ میں میوزیم نے مصر میں اس کے متعارف ہونے کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ یہ مشرقی مٹھائیوں میں سے ایک ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ خاص طور پر شہزادوں اور بادشاہوں کے کھانے کے لیے بنائی گئی تھی۔
مینل پیلس میوزیم کی تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کنافہ کے ظہور کی تاریخ اموی دور تک جاتی ہے اور شاید اس سے آگے بھی پہنچتی ہے۔ کنافہ کے ظہور کے آغاز کے بارے میں کئی کہانیاں بیان کی گئی ہیں کہ لیونٹ میں مٹھائی بنانے والوں نے اسے سب سے پہلے ایجاد کیا اور اسے خلیفہ کے سامنے پیش کیا۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مصر میں مٹھائی کی اقسام میں کنافہ کا اپنا مقام ہے۔ یہ مٹھائی ایوبی، مملوک، ترکی، جدید اور عصری عہدوں میں رمضان کے مہینے سے منسلک رسموں میں سے ایک بن گئی ہے۔ یہ امیر اور غریب دونوں کا کھانا ہے۔ ہر ملک میں کنافہ بنانے کا ایک الگ طریقہ ہے جس طرح مصر کے لوگ اسے کریم سے بھرتے ہیں۔ مکہ کے لوگ اسے بغیر نمک کے پنیر سے بھرتے ہیں ۔ نابلس کے لوگ کنافہ بنانے میں بھی کمال رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ’’ کنافہ نابلسیہ‘‘ الگ سے مشہور ہوگیا ہے۔ شام کے شہروں میں اس کے کئی نام معروف ہیں۔ مبرومة، بللورية، عثمالية اور مفروكة کے نام کنافہ سے وابستہ ہیں۔ کنافہ کی ابتدا اور تاریخ کے بارے میں متضاد کہانیوں کے باوجود سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ رمضان المبارک کی سب سے محبوب اور لذیذ مٹھائیوں میں سے ایک ہے۔ کوئی عرب یا مصری دسترخوان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔