ارشد ندیم کی ایشیائی چیمپئن شپ جنوبی کوریا میں تاریخی کامیابی کی تیاری!

تحریر : اویس طاہر

لاہور کے کھلے آسمان تلے، جہاں دھوپ کی تمازت اور ہوا کی سرسراہٹ کے درمیان ایک ایسا سپرٹ موجود ہے جو ناممکن کو ممکن بناتا ہے، ارشد ندیم اپنے نیزے کے ساتھ ایک نئی تاریخ لکھنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ برس پیرس اولمپکس 2024 میں **92.97 میٹر** کے اس تاریخی تھرو نے نہ صرف انھیں اولمپک چیمپئن بنا دیا بلکہ پاکستان کو ایک ایسا ہیرو دیا جو کھیلوں کی دنیا میں ایک افسانوی کردار بن چکا ہے۔ اب جبکہ ایشیائی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کا بڑا مرحلہ قریب آ رہا ہے، جو 27 مئی سے جنوبی کوریا میں منعقد ہوگا، ارشد ندیم لاہور کے ایک تربیتی کیمپ میں اپنے خوابوں کو ایک نئی پرواز دینے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ان کی نظر اب صرف ایشیائی چیمپئن شپ کے سونے کے تمغے پر ہی نہیں، بلکہ اپنے ہی بنائے ہوئے اولمپک ریکارڈ کو شکست دینے پر بھی ہے۔

ارشد ندیم کی روزمرہ کی تربیت کا ہر لمحہ ایک منظم اور سائنسی انداز میں گزارا جاتا ہے۔ صبح کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی وہ لاہور کے ایک جدید اسپورٹس کمپلیکس میں پہنچ جاتے ہیں، جہاں ان کی ٹیم ،جس میں کوچ، فزیو تھیراپسٹ، اور نیوٹریشنسٹ، شامل ہیں—ان کی ہر حرکت کو مانیٹر کرتی ہے۔ تربیت کا آغاز ہمیشہ ڈائنامک وارم اپ سے ہوتا ہے، جس میں جوڑوں کی لچک، پٹھوں کی طاقت، اور دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے والی مشقیں شامل ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے نیزے کو تھام کر مخصوص ڈرلز پر کام کرتے ہیں، جن کا مقصد تھرو کے دوران جسم کے توازن، نیزے کے زاویے، اور رفتار کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ کوچ سلمان اقبال بٹ جو ارشد کے ساتھ گذشتہ پانچ سالوں سے کام کر رہے ہیں، نے بتایا کہ “اب ہماری تربیت کا 70 فیصد حصہ ‘ٹارگٹ پرسیژن’ پر مرکوز ہے۔ یعنی ہر تھرو کو نہ صرف دورانیے بلکہ درستگی کے ساتھ پرفیکٹ پوزیشن پر لے جانا۔ یہ ٹیکنالوجی اور انسانی محنت کا امتزاج ہے۔”

تربیت کے دوران ارشد ندیم کے نیزے کے وزن، لمبائی، اور ایروڈائنامکس میں بھی مسلسل تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ ہوا کے دباؤ اور موسمی حالات کے مطابق بہترین نتائج حاصل ہو سکیں۔ ارشد نے گزشتہ ہفتے **81.5 میٹر** تک کے تھروز کیے ہیں، جو ان کی طرف سے ایشیائی چیمپئن شپ سے پہلے ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ اپنے اولمپک ریکارڈ کو توڑنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “جب میں نے پیرس میں 92.97 میٹر پھینکا، تو مجھے احساس ہوا کہ انسانی صلاحیتیں لامحدود ہیں۔ اب ہدف 95 میٹر ہے، لیکن پہلے ایشیا کو یہ بتانا ہے کہ اولمپک چیمپئن کا مطلب کیا ہوتا ہے۔”

تربیت کا نفسیاتی پہلو: دباؤ کو طاقت میں بدلنا
ارشد ندیم کی کامیابی کا ایک اہم راز ان کی ذہنی مضبوطی ہے۔ اولمپک چیمپئن بننے کے بعد سے ان پر قوم کی توقعات کا بوجھ بڑھ گیا ہے، لیکن وہ اسے اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔

خوراک اور بحالی: ایک رازدار فارمولا
ارشد ندیم کی خوراک اب ایک راز نہیں رہی، ان کی خوراک میں بکرے کا گوشت ،گائے کے گوشت، مچھلی، پالک، سبزیاں ،دالیں اور خشک میوہ جات جیسے اجزاء شامل ہیں۔
تربیت کے بعد، ان کی جسمانی بحالی کے لیے کرسٹل آئس باتھ، اور مساج کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ارشد کا کہنا ہے کہ “پہلے میں سمجھتا تھا کہ نیزہ باز کو صرف بازوؤں کی طاقت درکار ہوتی ہے، لیکن کوچ نے مجھے سکھایا کہ یہ پورے جسم کا کھیل ہے۔ ایک تھرو میں ٹانگوں، کمر، سینے، اور یہاں تک کہ انگلیوں کا کردار ہوتا ہے۔”
جنوبی کوریا کی تیاری: موسم سے لے کر ثقافت تک
ارشد ندیم مئی کے دوسرے ہفتے میں جنوبی کوریا کے لیے پرواز کریں گے تاکہ مقابلے سے پہلے موسم اور میدان کے حالات سے مطابقت پیدا کر سکیں۔ جنوبی کوریا کا درجہ حرارت مئی میں 18 سے 25 ڈگری سیلسیس تک رہتا ہے، جو نیزہ پھینک کے لیے مثالی سمجھا جاتا ہے۔ ارشد کی ٹیم نے حال ہی میں اسی درجہ حرارت کو لاہور کے ایک کنٹرولڈ ماحول میں نقل کیا ہے، جہاں وہ مصنوعی ہوا اور نمی کے ساتھ مشق کرتے ہیں۔ نیزے کے لیے استعمال ہونے والا مواد بھی کوریا کے معیارات کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔ ارشد کے بقول، “میدان سے واقفیت اہم ہے۔ میں نے پیرس میں بھی دو ہفتے پہلے پہنچ کر تربیت لی تھی، اور یہی فارمولا اب بھی کارآمد ہے۔”
پاکستان کی امیدیں: ایک قوم ایک ہیرو
ارشد ندیم کی کامیابیوں نے پاکستان میں کھیلوں کی ثقافت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ لاہور، اسلام آباد، اور کراچی میں نیزہ پھینکنے کے نئے کلب کھلے ہیں، جبکہ اسکولوں میں کھیلوں کے پراجیکٹس میں بھی اس ایونٹ کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ارشد کی کامیابی کے بعد “نیشنل جیولن ڈویلپمنٹ پروگرام” شروع کیا ہے، جس کے تحت 14 سے 20 سال کی عمر کے ہونہار کھلاڑیوں کو چین اور جرمنی میں تربیت کے لیے بھیجا جائے گا۔
مخالفین کا مقابلہ: ویسے تو ارشد کا مقابلہ ایشیا کے تقریباً سب ممالک کے ساتھ ہے، لیکن ارشد کا کہنا ہے کہ “میرا مقابلہ کسی اور سے نہیں، خود اپنے آپ سے ہے۔ اگر میں اپنی صلاحیتوں کو 100 فیصد دے سکا، تو تمغہ یقینی ہے۔”

قوم کی دعائیں: سوشل میڈیا سے لے کر گلی محلوں تک
پاکستان بھر میں ارشد ندیم کی کامیابی کے لیے عوامی حمایت اپنے عروج پر ہے۔ جبکہ کئی شہروں میں دیواریں ارشد کے تھروز کی تصاویر سے سجائی گئی ہیں۔ لاہور کے ایک نوجوان طالب علم احمد نے بتایا، “میں نے اپنے گھر کی چھت پر نیزہ پھینکنے کی مشق شروع کر دی ہے۔ ارشد میرا ہیرو ہے، اور میں بھی ایک دن اپنے ملک کے لیے تمغہ جیتوں گا۔”
تاریخ کے دہانے پر: جب نیزہ فضا کو چیرتا ہے
28 مئی کو جب ارشد ندیم Gumi کے اسٹیڈیم میں اپنا پہلا تھرو کریں گے، تو پوری قوم ایک ساتھ سانس روکے ان کی طرف دیکھ رہی ہوگی۔ یہ صرف ایک کھلاڑی کا مقابلہ نہیں، بلکہ ایک قوم کے عزم، خواب، اور خود اعتمادی کا امتحان ہے۔ ارشد کا نیزہ جب فضا کو چیرتا ہوا 90 میٹر سے آگے نکلے گا، تو یہ پاکستان کی نئی نسل کو یہ پیغام دے گا: **”ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے بس ایک نیزہ، ایک خواب، اور ایک دِل چاہیے۔”**

**آخر میں:**
ارشد ندیم کی کہانی کسی سپورٹس ڈرامے سے کم نہیں۔ یہ ایک ایسے کھلاڑی کی کہانی ہے جس نے تنہا، وسائل کی کمی کے باوجود، اپنی محنت سے دنیا کے نقشے پر پاکستان کا نام روشن کیا۔ گوامی کا میدان ہو یا کوئی اور، ارشد کا سفر ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ جب عزم کی نیزہ پھینک دی جائے، تو فاصلے محض عدد نہیں رہتے—وہ تاریخ بن جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں