اسلام آباد: پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے غزہ سے فلسطینی عوام کے دوسرے ملکوں میں منتقل کیے جانے کے ٹرمپ منصوبے کے بعد اس ہفتے میں سامنے آنے والے ردعمل کے دوران کہا ہے کہ ‘او آئی سی’ کے وزرائے خارجہ کا اس معاملے میں اجلاس بلا کر فلسطینیوں کے خلاف جاری مظالم کا جائزہ لیا جائے اور ٹرمپ کے منصوبے کے سامنے آنے سے پیدا شدہ صورتحال پر غور کے لیے مسلم دنیا کے وزرائے خارجہ اکٹھے ہوں۔
ٹرمپ نے یہ منصوبہ اسی مہینے کے شروع میں پرزور انداز میں پیش کیا ہے۔ تاکہ غزہ فلسطینیوں سے خالی ہوجائے۔ ان فلسطینیوں کو مصر، اردن یا کچھ اور ملکوں میں منتقل کر دیا جائے اور غزہ کی صفائی کے ساتھ غزہ میں تعمیرات کا آغاز کر سکیں۔
اس حوالے سے صدر ٹرمپ پر مشرق وسطیٰ کے سب ملکوں کے علاوہ یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں سے بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور سرزمین سے نکال کر وہاں پر ساحلی تفریحی مرکز بنانا چاہتے ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ کے اس منصوبے پر اسرائیلی حکومت اور انتہا پسند اسرائیلی جماعتوں میں غیر معمولی طور پر جوش پایا جاتا ہے اور وہ اس سے بہت خوش ہوئے ہیں کہ جو کام اسرائیل نہیں کر سکا امریکی صدر نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ اس تجویز کو اردن، مصر سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں اور پاکستان نے مذمت کی۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے بھی اس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس بارے میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران کہا ہے کہ دونوں اعلیٰ سفارتکاروں نے ٹرمپ کے اس منصوبے پر باہم تبادلہ خیال کیا اور گہرا اضطراب و تشویش ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ کا یہ منصوبہ غیرمنصفانہ اور بین القوامی قاون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے۔
اسحاق ڈار نے مطالبہ کیا کہ اس بارے میں مشترکہ مؤقف اختیار کرنے کے لیے مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا فوری اجلاس بلایا جائے۔ ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ پاکستانی وزیر خارجہ کی گفتگو میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ پاکستان اور ایران اگلے دنوں سامنے آنے والی ایسی ڈویلپمنٹس پر آپس میں رابطے میں رہیں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ‘غزہ کی سرزمین فلسطینوں کی سرزمین ہے اور اس پر فلسطینی عوام کا حق ہے۔ ‘اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر بھی زور دیا۔ ان کے خیال میں یہی ایک ممکنہ حل موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان فلسطینیوں کی آزاد و خودمختار ریاست کے قیام کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔ ایسی فلسطینی ریاست جس کی سرحدیں 1967 کے فلسطین کی سرحدوں کی بنیاد پر ہوں اور جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔’
صدر ٹرمپ کا یہ منصوبہ اسرائیل و حماس کے درمیان ساڑھے 15 ماہ کی جنگ کے بعد ہونے والی جنگ بندی کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس جنگ بندی معاہدے کے مطابق اسرائیلی قیدیوں کی غزہ سے رہائی کے تبادلے میں اسرائیلی جیلوں سے فلسطینیوں کی رہائی شامل ہے۔