اندلس کے یہودی:
اندلس میں عیسائیوں کے علاوہ یہود بھی آباد تھے، لیکن ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی، یہود نے جب سے انبیاء علیہم السلام کی نافرمانی کی اور ہر زمانہ میں ان کے خلاف سازشوں کا جال تنا، وہ ذلت و مسکنت کے عذاب میں مبتلا ہوگئے، اگرچہ وہ ہر زمانہ میں ملکی معیشت پر قابض رہے، لیکن اقوام عالم کی نگاہ میں ان کی کوئی عزت نہ تھی اور ہر ملک کے عوام ان کو اپنی ہر مصیبت کا منبع سمجھتے تھے۔
تاریخ کے اوراق اس بات کی زندہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ احسان فراموش قوم ہے۔ اندلس میں بھی یہود ذلت و خواری کی زندگی بسر کر رہے تھے، یہ شہری حقوق سے محروم تھے، بلکہ ان سے توطن کا حق بھی چھین لیا گیا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کی تخت نشینی کے وقت اس کے حلف میں اس بات کا اقرار ضروری قرار دیا گیا کہ: ”یہودیوں کو خواہ وہ کتنے ہی بلند منصب پر کیوں نہ ہوں، جلاوطن کیا جائے گا۔“ یہ ملک کا قانون قرار دیا گیا۔
اس قانون کے نفاذ سے اندلس کے یہودیوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا۔ ان پر عام داروگیر شروع ہوئی۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو جلا وطن کیا گیا اور کچھ قتل کیے گئے، کچھ زندہ جلائے گئے، کچھ کو جیلوں میں سڑنے کے لیے قید کردیا گیا، بہت سے غلام بنا لیے گئے۔ ان کی ساری دولت و ثروت کچھ لوٹ لی گئی اور کچھ بحق سرکار ضبط کرلی گئی، لیکن یہ قوم اپنی تاریخ کے ہر دور میں نہایت سخت اور سازشی ثابت ہوئی۔
نزول قرآن کے وقت یہود کی جو حالت تھی وہ قرآن حکیم اور تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں۔ صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے دور کردیا تھا، ان کے عقائد میں بہت سے غیر عناصر کی آمیزش ہوگئی تھی، ان کی عملی زندگی نہایت گندی اور انحطاط پذیر تھی، انہوں نے تورات کو انسانی کلام میں خلط ملط کردیا تھا اور خدا کا جو کلام کچھ محفوظ تھا اس کو بھی انہوں نے اپنی من مانی تاویلوں سے گورکھ دھندا بنا کر رکھ دیا تھا۔ صرف ظاہرِ مذہبیت کا ایک بےجان ڈھانچہ باقی تھا جس کو وہ سینے سے لگائے رکھتے تھے۔ ان کے علماء اور مشائخ، ان کے سرداران قوم ان کے عوام سب کی اعتقادی اخلاقی اور عملی حالت یک قلم بگڑ چکی تھی اور وہ اب کسی اصلاح کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے تھے۔ اور ان کے ہاں بدعتوں، تحریفوں، تاویلوں، موشگافیوں اور فرقہ بندیوں اور خدا فراموشی اور دنیا پرستی ان کی زندگی کے ایک ایک عمل سے ظاہر ہوتی تھی۔
آج بھی ان کا یہی حال ہے اور اندلس میں بھی ان کی حالت یہی تھی، لیکن ان لوگوں نے اپنی سخت جانی اور سازشی ذہنیت، شاطرانہ چالوں اور اپنے ذہنی اور علمی تفوق سے ان بے شمار آلام و مصائب کے باوجود اپنا امتیاز قائم رکھا۔ دولت چھننے کے بعد ان کے سودی کاروبار سے دولت کے انبار پھر ان کے قبضہ میں آگئے۔ اس طرح انہوں نے مختلف سازشوں اور حیلوں سے اندلس میں اپنے وجود کو ختم ہونے سے بچائے رکھا۔ اس میں ایک طریقہ تو انہوں نے یہ اختیار کیا کہ اپنے خزانوں کے منہ پادریوں کے لیے کھول دیے۔ اندلس میں اس زمانہ میں پادریوں کا دور دورہ تھا اور وہ دنیا اور دولت کی طمع میں غلطاں اور حریص تھے، لہذا ان پادریوں کو بڑی بڑی رشوتیں دے کر اپنا ہم نوا بنا لیا، جس طرح وہ اپنی دولت کے خزانوں کے منہ امریکہ کے صدر کے الیکشن کے لیے کھول کر اس کو اپنا ہم نوا بنا لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت کے مالیات (Finance) کا عہدہ انہی کے ہاتھوں میں آ گیا۔
مختلف علاقوں میں وہ سفارت کی خدمات انجام دینے لگے اور مختلف علمی، ادبی اور دوسری تمدنی اور تہذیبی ترقیوں میں پیش پیش رہنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے بڑے اندلسی امراء اور جاگیردار جو اکثر و بیشتر ان پڑھ تھے، یہودیوں کے علمی تفوق اور برتری کے باعث انہیں اپنی جائیداد کا منتظم اور منصرم بنانے لگے۔
وزی گاتھ کے زمانہ میں اندلس کی علمی، تمدنی اور صنعتی ترقیاں اپنے زمانہ کے لحاظ سے پورے عروج پر تھیں۔ دولت و ثروت کے انبار کا یہ حال تھا کہ جب مسلمان فاتحین یہاں پہنچے تو ان کا بیان ہے کہ مال و دولت کے ایسے انبار کسی دوسری جگہ انہوں نے نہیں دیکھے تھے۔ دولت کی فراوانی کی وجہ سے وہ عیش و تنعم کی اعلیٰ تمدنی زندگی مختلف طریقوں سے گزارنے کے عادی تھے۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں دولت و ثروت کی فراوانی سے پادریوں کے دلوں میں حرص و طمع پیدا ہوگئی تھی، کیوں کہ دولت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ جتنی بھی زیادہ ہو کم ہی نظر آتی ہے۔ پھر اس کی مثال سمندر کے نمکین پانی کی طرح ہے، سمندر کا پانی جتنا چاہیں پئیں، پیاس نہیں بجھے گی بلکہ اور زیادہ پیاس لگتی ہے۔ ایسے ہی مال و ثروت جتنا بھی ہو اس کی حرص روز بروز زیادہ ہوتی ہے۔ گویا کہ:
ہفت اقلیم ار بگیرد پادشاه
ہم چنان در بند اقلیمے دگرا
چنانچہ ان پادریوں میں بھی جاہ طلبی، عیش پرستی، عیاشی اور عیش و عشرت انتہاء کو پہنچ گئی تھی، اسقف کا محل شبانہ روز فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ پادریوں کی عیاشیوں اور مترفانہ زندگیوں کے ساتھ سلاطین اور اس زمانہ کے بیورو کریٹس بھی بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے تھے اور جاہ و منصب اور دولت و ثروت کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور سبقت لے جانے میں سرگرم رہنے لگے۔ اس مسرفانہ اور مترفانہ زندگی گزارنے کے لیے اور ذاتی اغراض کی تسکین و اطمینان کے لیے عوام کو نہایت بری طرح ستانے لگے، خصوصاً غلاموں کے ساتھ تو جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا، عوام الناس پر جب ظلم و تشدد زیادہ ہونے لگا تو ان میں حرکت ہوئی، وہ کوئی پتھر کے بت نہیں گوشت پوست کے چلتے پھرتے انسان تھے، ان کی انسانی غیرت وحمیت نے کروٹ لی اور انہوں نے امراء کے در و دیوار ہلانے کا عزم کرلیا۔
چنانچہ ملک میں بغاوتوں کا دور شروع ہوا۔ بالآخر ویمبا (Wamba) فرمان روائے اندلس جو کچھ ہوش و خرد رکھتا تھا اس نے سمجھا اور بالکل درست سمجھا کہ اب اندلس کا غریب اور پس ماندہ طبقہ پادریوں کے اس ظلم وستم کی وجہ سے زیادہ دیر تک بے حس و حرکت نہیں رہ سکتا، کیوں کہ اب وہ طبقہ بیدار ہو چکا ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں کے ابتدائی حملے بھی اندلس پر ہوچکے تھے، لہذا اس نے ایک فوجی حکم کے ذریعے پادریوں کے اختیارات میں تحدید اور تجدید کی، لیکن پادریوں کو جو عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے تھے اور بے حد اختیارات کے مالک تھے وہ بھلا کب برداشت کرسکتے تھے کہ فرماں روائے وقت ان کے اختیارات پر کسی قسم کی کوئی قدغن لگائے، لہذا پادریوں نے اس کے خلاف جنگ کی آگ سلگا کر اس کو جلد ہی تخت نشین سے خاک نشین اور فرمانروا سے زیر فرمان کردیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ پادریوں کے جن بےحد وعد اختیارات پر اس نے جو قدغن لگائی تھی اور ان کو محدود کیا تھا وہ اس کے معزول ہونے کے بعد پھر غیر محدود ہوگئے اور انہوں نے پھر وہی بے لگام اقتدار حاصل کرلیا اور عوام ان کے ظلم و ستم سے پھر کراہنے لگے اور وہ اپنے دل سے پادریوں سے شدید نفرت کرنے لگے۔
بعض مؤرخین نے یہ لکھا ہے کہ اندلس میں عیسائیوں کا کیتھولک فرقہ اریوسی عقائد پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملک پر پوری مضبوطی سے مسلط ہوچکا تھا۔ طلیطلہ کی چھٹی مجلس نے یہ ضابطہ بنایا تھا کہ تمام حکمرانوں کو یہ حلف دینا چاہیے کہ وہ سوائے کیتھولک مذہب کے کسی اور مذہب کی پیروی کی اجازت نہیں دیں گے اور ان لوگوں کے خلاف نہایت سختی سے قانون کا نفاذ کریں گے جو دین مسیحی سے انحراف کریں گے۔ اس کے بعد ایک اور قانون بنایا گیا کہ جو شخص مقدس کیتھولک کلیسا یا بائیبل کے احکام مذہبی پیشواؤں کے ارشادات کلیسا کے فتاویٰ اور دینی رسومات پر شک یا اعتراض کرے گا اس کی تمام جائیداد مکمل طور پر ضبط کرلی جائے گی اور اسے حبس دوام ( عمر قید) کی سزادی جائے گی۔
ارباب کلیسا نے اپنی جماعت کے لیے امور سلطنت میں بڑا اثر ورسوخ حاصل کرلیا تھا، چنانچہ جو قومی مجالس مملکت کے نہایت اہم امور کے انتظام و انصرام کے لیے منعقد ہوتی تھیں، پادری اور کلیسا کے دیگر اعلیٰ عہدیداران ان میں شرکت بھی کرتے تھے کہ اگر سربراہِ مملکت اور بادشاہِ وقت ان کے فیصلوں کی پابندی نہ کرے تو وہ اس کو تاج و تخت سے معزول کرنے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اندلس میں پادریوں کا زوال شروع ہوا، اس زوال میں فرمان روائے اندلس کو کامیابی ہوئی۔ اندلس کا اسقف اعظم (لاٹ پادری) اپنے عہدہ سے معزول کردیا گیا۔ پادریوں کے اس زوال کو دیکھ یہودیوں نے ایک سازش کے ذریعہ سلطنت پر قبضہ کرنا چاہا، لیکن ان کو اپنے اس مقصد میں کامیابی نہ ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اندلس سے انہیں جلاوطن ہونا پڑا اور ان کی دولت و ثروت اور تمام جائیدادوں پر ایک مرتبہ پھر قبضہ کرلیا گیا، لیکن کچھ عرصہ کے بعد عیسائیوں کے اشتعال میں کمی ہوئی تو یہ احکام واپس لے لیے گئے اور یہودیوں کو اندلس میں دوبارہ آباد ہونے اور ان کے مال و دولت اور جائدادوں پر قبضہ رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔
اس کے بعد حکومت کی باگ ڈور ایک ہوش مند وٹینرا (غیطشہ) کے ہاتھوں میں آئی۔ یہ بڑا سمجھ دار ذی ہوش اور رعایا پرور حکمران تھا۔ اس نے اپنی خدمات سے بڑی ہردلعزیزی حاصل کرلی۔ یہودیوں کے ساتھ جو کئی سالوں سے ظلم و تشدد کا نشانہ بنے ہوئے تھے اس نے بڑی نرمی کا سلوک اختیار کیا، لیکن ابھی اسے بادشاہ بنے چند سال ہی ہوئے تھے کہ وہ عیش و عشرت کا دلدادہ ہوگیا۔ اس کی اس عیش پرستانہ زندگی نے کلیسا کے پادریوں کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ اس کی حکومتی پالیسیوں میں دخل اندازی کریں۔ وٹینرا اقتدار کے نشہ میں چور تھا، پھر عیش و عشرت کے نشہ نے اقتدار کے نشہ کو دو آتشہ کردیا، لہذا اس نے پادریوں کی اس دخل اندازی کی پروا نہ کی، لیکن پادری غالب آگئے اور بالآخر اس کو تخت شاہی سے دست بردار ہونا پڑا۔
اس کا دست بردار ہونا تھا کہ ایک غیر ملکی قائد رزریق (راڈرک) اس کا جانشین مقرر ہوا اور اندلس کے تخت شاہی پر براجمان ہوگیا، نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے تخت نشین ہوتے ہی وٹینرا گاتھ خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ رزریق یا راڈرک گاتھ نسل سے نہ تھا، بلکہ اصفہان کے کسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ 82 سال کی عمر میں اندلس کے تخت شاہی پر بیٹھا، وہ خلیقیہ اور دوسری کئی جنگوں میں شہرت حاصل کر چکا تھا۔ وٹینرا کے زمانہ میں وہ اندلس کا سپہ سالار اعظم (کمانڈر انچیف) تھا اور لوگوں میں نہایت اچھی شہرت رکھتا تھا۔ کامیابی کے ساتھ اس نے اندلس کی زمام حکومت سنبھالی۔ لوگ اس کے بادشاہ بننے سے نہایت خوش تھے، کیونکہ وہ لوگوں میں پہلے ہی سے ہردلعزیز تھا، لیکن تخت اندلس پر بیٹھنے کے بعد وہ جلد ہی اقتدار کے نشہ میں مخمور ہوکر اپنے فرائض منصبی سے یک قلم غافل ہو گیا، جس سے لوگوں میں نہ صرف مایوسی نے جنم لیا، بلکہ برہمی بھی پھیلی۔
ایک طرف تو یہ سب کچھ ہو رہا تھا، دوسری طرف جن لوگوں سے حکومت چھینی گئی تھی اب اس گاتھ خاندان کے شاہزادوں کے دلوں میں اپنی حکومت کے زوال کا احساس پیدا ہوا، کیوں کہ اقتدار کا نشہ بہت مخمور کر دینے والا ہوتا ہے۔ وہ کہاں برداشت کر سکتے تھے کہ ان کے خاندان کی برسوں کی حکومت دوسروں کے ہاتھ میں چلی جائے، چنانچہ ان شہزادوں نے فوج اور عوام سے رابطہ کیا تو انہوں نے رعایا اور فوج کے لوگوں میں شاہزادوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پائے۔ اس لیے جلد ہی ایک جماعت تیار ہوگئی جو رزریق کو تخت شاہی سے ہٹا کر قدیم شاہی خاندان کے افراد کو برسر اقتدار لانے کی خواہش مند تھی، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اب رزریق کو گاتھ خاندان کے لوگوں سے بہتر نہیں سمجھتے تھے، کیوں کہ یہ بھی اب اسی طرح عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنے لگا جیسی زندگی وہ بسر کرتے تھے۔ بہر حال! طارق بن زیاد کے حملہ کے وقت رزریق ہی اندلس کا حکمران تھا۔
جزیرہ نما اندلس میں مسلمانوں کے قدم رکھنے کے وقت کوہ پائیرینس کے اس پار علاقہ جنوبی فرانس میں جرمن قبیلہ فرینک (Frank) کا قبضہ واقتدار تھا اور یہی لوگ شمالی فرانس کے حکمران تھے۔
============> جاری ہے ۔۔۔