اندلس مسلمانوں کی حکومت سے پہلے
اندلس کی قدیم تاریخ کیا تھی اور مسلمانوں کی حکومت سے پہلے وہاں کے حکمرانوں کے خاندان اور لوگوں کی حالت کیا تھی؟ اور کن وجوہات کی بناء پر مسلمانوں کو اندلس پر حملہ کرنا پڑا؟
اندلس میں سب سے پہلی آباد ہونے والی قوم کا نام عرب مؤرخین کے مطابق “اندلش” تھا اور مغربی مؤرخین کے بیان کے مطابق “سلسٹ” تھا۔ بعد ازیں آئی بیری اور لگوری قومیں اندلس میں آئیں اور اس کے بعد افریقہ کی راہ سے فینیفقیون نے کئی سو برس قبل مسیح اندلس کے جنوبی ساحل پر آکر آبادیاں قائم کیں۔ پھر سنہ 247 قبل مسیح قرطاجنی جنوبی اسپین میں آئے۔ اسی زمانہ میں یونانیوں نے اندلس کے مشرقی ساحل پر بستیاں آباد کیں۔ اب حالات یہ ہوگئے کہ مختلف قوموں کے اجتماع سے زمین کے لیے ایک کشمکش کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ الگ الگ حکومتیں قائم ہو کر لڑائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، کیوں کہ ہر قوم کی خواہش تھی کہ وہ اندلس کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کر کے دوسری قوموں پر حکمرانی کرے، کیوں کہ اقتدار کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے، خصوصی طور پر ایک خدا نا آشنا معاشرہ میں۔
ان جنگوں میں دوسری صدی قبل مسیح میں قرطاجینوں نے شکست کھائی۔ ان کا دارالسلطنت اور حد مقام اشبیلیہ تھا۔ اس کے بعد رومیوں کو اقتدار نصیب ہوا اور وہ کئی سو برس تک اندلس پر اپنے اقتدار کا پھریرا لہراتے رہے۔ آگسٹس کے زمانہ میں اندلس تین حصوں میں منقسم تھا، دوسرے لفظوں میں یہ تین صوبوں میں تقسیم تھا۔ ❶ لوسی ٹینا ❷ بٹیکا ❸ مٹرا کونس۔
رومیوں کے عہد حکومت میں اندلس میں بڑے بڑے نامور فلسفی، مکالمہ نگار، شاعر اور دانشور پیدا ہوئے۔ رومی حکومت وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی گئی، یہاں تک کہ ملک میں خود مختار حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ چنانچہ یرٹیرا گونا میں ایک خود مختار حکومت قائم ہوئی جو رومیوں کا مقابلہ کرتی رہی۔ بالاخر جرمن وحشی قوموں نے جنہوں نے رومیوں کے آخری زمانہ میں قوت پکڑ لی تھی، حکومت پر قبضہ کر لیا۔ یہ لوگ کبھی رومیوں کے باجگزار تھے اور اب یہ خودسری سے حکومت کر رہے تھے۔ یہ وحشی بہت جلد لاطینی قوموں میں مل گئے اور انہوں نے ان قوموں کی طرح لاطینی زبان ہی اختیار کرلی اور بت پرستی چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا۔ رومی تہذیب و تمدن اور نظام حکومت قبول کرکے اس ملک کے فرماں روا بن گئے۔
پھر پانچویں صدی عیسوی میں ایک نئی قوم گاتھ منصہ شہود پر آئی جس کو عرب مؤرخین توطہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ان کا قافلہ بحراسود کے شمالی ساحل کے قریب دریائے نیپر کے نواح سے اٹھا تھا اور یونان، اٹلی اور فرانس سے گزرتا ہوا سنہ 414ء میں اسپین پہنچ گیا۔ یہاں انہوں نے شیواہ اور الانی حکومتوں کو سنہ 419 ء میں ختم کیا اور جنوبی اسپین سے لے کر فرانس میں دریائے لوئر (Loir) تک کے فرماں روا اور حکمران بن گئے۔
اس قوم کو ملک کا اقتدار سنبھالے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یورپ میں بحر بالٹک کے کناروں یعنی جرمنی کے علاقوں سے ایک وانڈال قوم اٹھی اور فرانس کے علاقہ کو اپنی یورش سے عبور کرتے ہوئے اسپین میں داخل ہوئی اور جنوبی اسپین کے ایک حصہ میں قریب بیسں سال حکومت کر کے اور اپنے نام پر ملک کے اس حصہ کا نام “واندالیکیہ“ یا “واندالیشیہ” مشہور کر کے افریقہ چلی گئی، جہاں اس کی حکومت سنہ 534 ء تک رہی اور پھر رومیوں نے انہیں اقتدار سے ہٹا کر خود صاحب اقتدار ہوگئے، اور دوسری طرف پورے اسپین میں گاتھک حکومت قائم ہو گئی۔
گاتھ کون ہیں؟ گاتھ ان حملہ آور قبائل میں سے ہیں جو رومی سلطنت کے زوال کے دور میں عروج میں آئے اور سلطنت روما سے ان کی آویزش اور چپقلش تیسری چوتھی صدی عیسوی میں شروع ہوئی اور پانچویں صدی عیسوی میں تھیوڈاگ اعظم مشرقی گاتھک سلطنت کا بانی ہوا۔ گاتھ فرضی طور پر دو گروہوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ آسٹرو گاتھ (مشرقی گاتھ ) وزی گاتھ (مغربی گاتھ) مغربی یا وزی گاتھ سے اندلس کا تعلق پیدا ہوا اور پانچویں صدی عیسوی میں انہوں نے اپنی حکومت قائم کر لی۔
گاتھ اگرچہ اپنے خصائل اور اطوار کے لحاظ سے وحشی قبائل میں سے تھے، لیکن انہوں نے تاتاریوں کی طرح اپنی قوت اور زور بازو سے ترقی کی اور رومی سلطنت کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کر کے آزادی حاصل کر لی۔ ان کی حکومت کا ایک مستقل نظام ایک شاہی کونسل اور ایک صحیفہ قوانین پر قائم تھا۔ شاہی کونسل کو مذہبی کونسل بھی کہا جاتا تھا۔ اس کونسل کے ارکان اندلس کے معزز پادری ہوتے تھے اور صدر بادشاہ ہوتا تھا۔ ایک طرف بادشاہ پادریوں کو اسقف کے عہدہ سے عزل و نصب کا پورا اختیار رکھتا تھا اور دوسری طرف بادشاہ کی تخت نشینی پادریوں کی منظوری کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اس موقع سے پادریوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنی قوت اکٹھی کر کے حصول اقتدار کی کوشش کی، یہاں تک کہ حکومت کی باگ ڈور پورے طور پر ان کے ہاتھ میں آگئی۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ملک کے ارباب ثروت آگے بڑھے اور انہوں نے بھی حکومت کے اقتدار میں برابر کا حصہ لینا چاہا اور اس کوشش میں وہ ایک حد تک کامیاب ہو گئے۔ چھٹی صدی عیسوی سے اندلس میں کیتھولک مذہب کا دور شروع ہوا جس کی وجہ سے پادریوں کے اقتدار میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا، یہاں تک کہ وہ اندلس کے سیاہ وسفید کے مالک ہو گئے۔
خود شاہ اندلس اب اپنے آپ کو ان کا دست نگر سمجھنے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اقتدار اور پادریوں میں کشمکش شروع ہوئی، لیکن اس باہمی کشمکش میں پادریوں کی برتری میں کوئی فرق نہ پڑا اور وہ زیر دست ہونے کے بجائے زبردست ہی رہے۔
============> جاری ہے ۔۔۔