اندلس جغرافیائی آئینہ میں:
پیشتر اس کے کہ ہم فاتح اندلس اور تاریخ کے ایک عظیم جرنیل موسیٰ بن نصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه کے حالات زندگی صفحات قرطاس پر رقم کریں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اندلس کا تھوڑا سا جغرافیہ بھی بیان کردیا جائے اور وہاں کے اس وقت کے حالات بھی اجمالی طور پر حیطۂ تحریر میں لائے جائیں، جن حالات کے پس منظر میں مسلمان جرنیل اندلس پر حملہ کرنے پر مجبور ہوئے۔
اندلس جنوب مغربی یورپ کے آخری سرے کا وہ جزیرہ نما ہے جس میں آج کل اسپین اور پرتگال کے نام سے دو جدا گانہ ملک اور سلطنتیں واقع ہیں، لیکن جب مسلمانوں نے اس ملک کو فتح کیا اس زمانہ میں اندلس کا رقبہ ان دونوں ملکوں کے رقبے پر مشتمل تھا۔
اندلس کی وجہ تسمیہ:
اندلس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے یونانیوں نے اس کو آئیبیریا (IBERIA) کے نام سے یاد کیا جو ایک یونانی گروه آبیری (IBERI) کی طرف منسوب ہے۔ بعض قدیم عرب مصنفین نے اندلس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس ملک کا یہ نام اندلس بن طوبال بن یافث کے نام پر ہے، جیسا کہ سبت بن طوبال بن یافث کے نام پر اندلس کے مقابل کے ساحلِ افریقہ پر ایک جگہ سبتہ ہے، لیکن اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اندلس نام خاصا پرانا ہے۔
چنانچہ 98ھ / 716ء کے ایک “دو لسانی” (عربی اور لاطینی) دینار پر بھی ملتا ہے۔ اور اس میں لفظ الاندلس کے لیے لاطینی مرادف اسپانیہ (Spania) استعمال کیا گیا ہے۔ ہسپانوی لاطینی مؤرخوں نے پورے جزیرہ نما آئی بیریا یعنی مشترکہ طور پر مسلم اسپین اور مسیحی اسپین کے لیے صرف یہی نام اسپانیہ یا اس کا بدل ہسپانیہ استعمال کیا ہے۔ اس کے برعکس عرب مصنفین جب بھی اندلس لکھتے ہیں تو بظاہر اس سے ان کی مراد صرف اسلامی اسپین ہوتی ہے، خواہ اس کی جغرافیائی حدود کچھ بھی رہی ہوں۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ رومیوں نے اس کو ہسپانیہ کے نام سے پکارا، اس لیے کہ یہ رومی سلطنت سے جانب مغرب کا ملک (Hesperie) تھا اور عرب مؤرخین کی توجیہ کے مطابق یہ “اشبانیا” کہا گیا جو رومی حکمران اشبان بن طبطش کی طرف منسوب ہے اور یہ نام شروع میں صرف اشبیلیہ کا تھا جو “اشبان” اور “ایلیا” (بیت المقدس) سے مرکب ہے۔ دور حاضر کے محقق مؤرخین نے لفظ اندلس کی وجہ تسمیہ اصل جرمن قوم کے نام واندالس (Vandalus) یا واندال (Vandal) کو قرار دیا ہے۔ جرمن قوم یہاں صرف سنہ 411 ء سے 425 ء تک حکمران رہی، بایں ہمہ ایک فاتح قوم کے نام پر ایک خطہ کا نام واندالیسیہ (Vandalicia) ہو گیا، جو بعد میں اندلس کی شکل تبدیل کر گیا۔
اس لفظ کا صحیح تلفظ “اندلس” ہے۔ (معجم البلدان یاقوت حموی جلد: 1، ص: 247) عربوں نے جب اسپین کے جنوبی حصے کو فتح کیا تو اس کو اس زمانہ میں “واند الیسیہ” کہا جاتا تھا، اس لیے انہوں نے اس “واندالیسیہ” کو اپنی زبان میں “اندلس” کہنا شروع کردیا، پھر جیسے جیسے فتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور جو جو علاقہ اسلامی عملداری میں آتا گیا اس نام کا اطلاق اس سب علاقے پر ہوتا گیا، یہاں تک کہ پورے اسپین پر اس نام کا اطلاق ہونے لگا، پھر جنوبی فرانس کے کچھ علاقے بھی مسلمانوں نے فتح کیئے، وہ علاقے بھی اندلس کے ملک کی وسعت میں آگئے۔
عرب جغرافیہ دانوں نے جن میں ادریسی سب سے مشہور ہے، اس نے اندلس کا طول گیارہ سو میل اور عرض چھ سو میل لکھا ہے، لیکن موجودہ پیمائش کے اعتبار سے مشرق سے مغرب کی جانب زیادہ سے زیادہ طول 635 میل اور عرض 510 میل ہے، لیکن اس پیمائش میں فرانس کا کوئی علاقہ داخل نہیں جو اس زمانہ میں مسلمانوں کی عمل داری میں شامل تھا، اس لیے ادریسی کی پیمائش کو غلط بھی کہا جا سکتا ہے۔
اندلس کی سطح سمندر سے بلندی قریباً 321 سو فٹ ہے، یہ بلندی مشرق سے مغرب کی طرف کم ہوتی گئی ہے۔ اندلس کی اس سطح مرتفع میں پہاڑوں کے چھ چھوٹے بڑے سلسلے مشرق سے مغرب کی سمت پھیلے ہوئے ہیں۔ جن کےنام حسب ذیل ہیں:
❶ جبل البرانس ❷ الشارات ❸ جبال طیطلہ ❹ شارات مورینہ ❺ جبل اللج يا جبل الثلير ❻ المبشارات۔
ان چھ سلسلوں کے علاوہ چند پہاڑیاں مغربی اور مشرقی اندلس میں شمال سے جنوب کی طرف بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر ان تمام سلسلوں کے علاوہ اندلس کا ایک اور پہاڑی سلسلہ لائق ذکر ہے جو “جبل الطارق” کے نام سے موسوم ہے۔ یہ جنوبی اندلس کے صوبہ قادس کے جنوب مشرق میں ایک جزیرہ نما کی شکل میں واقع ہے۔ یہ شمالاً جنوباً تین میل لمبا اور شرقاً غربا ایک میل چوڑا ہے۔ اس کی سب سے بلند چوٹی 1439 فٹ اونچی ہے۔ اس کے غربی جانب ایک خلیج ہے جس کو “خلیج جبر الٹر” کہتے ہیں۔ جبل الطارق کے آمنے سامنے 25 میل کے فاصلہ پر شہر سبتہ آباد ہے۔ جبل الطارق پر اسلامی دور میں قلعے تعمیر ہوئے۔
اندلس کی زراعت:
اندلس کے انہی پہاڑوں سے کئی دریا نکلتے ہیں، جن کی تعداد بیسں سے کچھ زیادہ ہے، ان میں کچھ دریا بڑے ہیں اور کچھ چھوٹے ہیں جن کو ہماری اصطلاح میں “نہر” کہتے ہیں۔ ان میں سے بعض دریا بحر محیط میں گرتے ہیں اور بعض بحر روم میں اور بعض آبنائے جبر الٹر میں۔ پانی کی اس فراوانی اور زمین کی زرخیزی کی وجہ سے اندلس ایک زرعی ملک تھا اور آج بھی زرعی ملک ہے۔
مسلمانوں نے جب اس پر قبضہ کیا تو زراعت کو بڑی ترقی دی۔ کاشتکاروں کو کاشتکاری کی ترغیب دی گئی، تجارتی کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کے راستے پیدا کیے گئے، تجارتی قافلوں کو مال لانے، لے جانے کا رواج دیا گیا اور فصلوں کو دوسرے شہروں میں لے جانے کے لیے گزرگاہوں پر پل تعمیر کیے گئے۔
زراعت کے لیے اندلس میں دو قسم کی زمینیں تھیں۔ ایک وہ جہاں دریاؤں اور نہروں سے آب پاشی کی جاتی تھی اور دوسری چاہی زمینیں تھیں، جہاں کنوؤں سے پانی پلایا جاتا تھا۔ جن زمینوں میں آب پاشی کا سامان تھا وہاں ہر قسم کا اناج پیدا ہوتا تھا، گیہوں، زیتون، مکئی، چنا، جو اور جوار وغیرہ۔ پھلوں میں سنگترے، لیموں، انجیر، بادام، انار، کیلا، سیب، اخروٹ، کھجور، آڑو، شفتالو اور گنا وغیرہ پیدا ہوتا تھا۔
اسی طرح بہت سی خوشبودار بوٹیاں اور پھول پیدا کیے جاتے تھے جن میں سنبل الطیب، قرنفل (لونگ) صندل، عود، زعفران، دار چینی، ادرک وغیرہ تھیں۔ ان میں سے بیشتر چیزیں مسلمان اپنے دور حکومت میں اپنے ساتھ باہر سے لائے تھے اور آج بھی وہ چیزیں اسپین اور پرتگال میں کثرت سے ہوتی ہیں۔ کچھ معدنیات بھی مسلمانوں نے وہاں دریافت کیں، جیسے قیمتی پتھر، سونا، چاندی، پارا، کہریا اور عنبر وغیرہ۔
ان نباتات اور معدنیات کے علاوہ یہاں کے حیوانات بھی قابل ذکر ہیں۔ یہاں پر درندوں کا وجود بہت کم تھا۔ چوپائے جیسے ہرن، پہاڑی بکری، گورخر، خچر اور مضبوط اور قد آور گھوڑے ہوتے تھے۔ اسی طرح نرم کھالوں والے جانور بھی تھے جن کے نرم بال اور کھالیں سردیوں میں پوستیں کے کام آتی تھیں۔ دریاؤں اور سمندروں کی وجہ سے مچھلی بھی ہر قسم کی بکثرت پائی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے اپنے زمانہ حکومت میں ان قدرتی ذرائع سے خوب فائدہ اٹھایا، حیوانات کی نسلوں کو بڑھایا۔ زراعت کو خوب ترقی دی۔ ملک کی معدنیات میں اضافہ کیا اور صنعت و حرفت اور تجارت کی داغ بیل ڈال کر اندلس کو کمال ترقی پر پہنچایا، جس سے اردگرد کے یورپی ممالک سے یہ ملک ممتاز ہوگیا۔
============> جاری ہے ۔۔۔