’خلائی مخلوق‘ زمین کی طرف آرہی ہے؟

کوئنزلینڈ یونیورسٹی: خلائی مخلوق یا ایلین کا تذکرہ قصوں کہانیوں اور فلموں تک محدود ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں اُن کا جسمانی خدو خال ویسا ہی ہے، جیسا ہم نے فلموں، کارٹون یا ڈراموں میں دیکھا ہے۔

جب سے انسان ترقی یافتہ اور خلائی اسرار سمجھنے کے کچھ قابل ہوا ہے، تب سے وہ اس تلاش میں سرگرداں ہے کہ کیا اس وسیع و عریض کائنات میں ہم اکیلے ہیں یا ہمارے جیسا کوئی اور بھی سیارہ اپنے اندر زندگی رکھتا ہے؟ کیا کوئی سیارہ ایسا بھی ہے جہاں زمین کی طرح زندگی رواں دواں ہے؟ کیا اس کائنات میں ہمارے جیسی کوئی مخلوق نت نئی ایجادات اور تحقیقوں میں مصروف ہے یا کم از کم پتھر کے دور میں ہی جی رہی ہے؟

ان سوالات کے جوابات معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے تلاش کرنے کی کوشش کی، اسی بنیاد پر انہوں نے اپنے مقالوں میں دعویٰ کیا کہ خلائی مخلوق کسی سیارے پر موجود ہیں اور وہ زمین کی طرف آنے کے لیے سرکردہ ہیں، ہم نے اگر اُن تک پہنچنے کی کوشش کی یا وہ زمین پر پہنچ گئیں تو کرہ ارض پر بڑی تباہی پھیل سکتی ہے۔

خلائی مخلوق کی موجودگی یا اڑن طشتری کی پرواز سے متعلق مختلف باتیں، قیاس آرائیاں سامنے آچکی ہیں، ایلین کے حوالے سے تو کچھ ایسی تحقیقات آئیں جن کے بارے میں پڑھ کر آپ اس مخلوق کی موجودگی کا یقین کرلیں گےْ

حال ہی میں کوئنزلینڈ یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم نے دعویٰ کیا کہ انہیں زمین سے 165 نوری سال مسافت کے فاصلے پر سرخ سیارے نظر آئے، جن میں سے چار مختلف قسم کی ایسی پرُاسرار شعاعیں خارج ہورہی تھیں، جنہوں نے سیاروں کے وجود کو مزید واضح کیا۔

ماہرین نے بتایا کہ انہوں سیاروں کی تلاش کے لیے طاقتور ترین دوربین لوفر کا استعمال کیا، جس میں مختلف سگنلز شمسی ہواؤں میں لہروں کی صورت میں خارج ہوتے نظر آئے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ماہرین فلکیات ریڈیو لہروں کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر ایکوپلانیٹ ہے اور ریڈیو فلکیات تھیوری کے لیے بہت اہم ثابت ہوسکتی ہے۔

تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر بینجمن پوپ نے بتایا کہ مطالعے کے دوران ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیا کے گرد گھومنے والے سیاروں کی تلاش نئی تکنیک کی مدد سے ممکن ہے مگر اس کے لیے خاصہ لمبا عرصہ انتظار کرنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں