پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے 84لاکھ کسان اس ملک کا اثاثہ ہیں، مہنگائی میں کمی کے لیے کسانوں کی آمدنی دگنی کرناچاہتے ہیں کیونکہ جب کسان کمائے گا تو وہ اپنی زمین پر لگائے گا، پیداوار بڑھے گی، ملک کو فائدہ ہوگا، غربت کم ہوگی اور کسان کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ اشیائے خورونوش کی قیمتیں نیچے آجائیں گی۔ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے ساتھ منسلک ہے لیکن زراعت میں چھوٹے کاشت کاروں اور کسانوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ گنا، کپاس، چاول اور گندم کی فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پاکستان میں پالیسی میکرز، پارلیمنٹرینز، صوبائی نمایندے، شوگر مل مالکان، تاجر وصنعت کاراور بیوروکریسی کی ہزاروں افسران زرعی زمینوں کے مالک ہیں، ان کو لاکھوں روپے منافع گھر بیٹھے مل رہا ہے، ایسی صورت میں ہمارے پالیسی سازوں کو چھوٹے کاشتکاروں کے مسائل کا احساس اور ادراک نہیں ہے، نہ ہی ہماری کوئی قومی زرعی پالیسی ہے۔ ملک کا زرعی شعبہ کئی سالوں سے زبوں حالی کا شکار ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس شعبے کی شرح ترقی بھی 3 فیصد تک ہی رہی ہے،جس میں بھی کبھی اضافہ اور کبھی کمی واقع ہوتی رہتی ہے،جس کے باعث ملک کا کاشتکار طبقہ مفلوک الحال ہے۔پاکستان کی زرعی اراضی کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بڑے زمیندار جن کے پاس زمین کے بڑے بڑے قطعات ہیں،لیکن وہ ان میں خود کاشتکاری نہیں کرتے ہیں بلکہ مزارعے یا ہاری زمین کا شت کرتے ہیں۔دوسرا گروہ وہ ہے جس کے پاس نہری پانی سے کاشت شدہ زمین ہے، لیکن یہ زمین 12ایکڑ فی خاندان سے زیادہ نہیں ہے، وہ ان چھوٹے خطہ اراضی پر مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کرسکتے اور مشینی کاشتکاری کے بغیر پیداوار کم ہی رہے گی، اسی لیے وہ دوسرے کاموں کی جانب اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں، اس کا نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ عام کسان محنت کرنے کے بعد جب گندم کی فصل اٹھاتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ سرکار نے جو نرخ مقرر کیے ہیں، اسی کے مطابق باآسانی اس کی گندم فروخت ہو جانی چاہیے لیکن پاکستان میں کاشتکاروں کے لیے مسائل پیدا کرنے کی خاطر بہت سے گروپ فعال ہو جاتے ہیں،جن میں غلہ منڈی کے آڑھتی، تاجر، مڈل مین اس طرح کے مختلف کارندوں کا روپ دھار کر کسانوں سے کم سے کم قیمت پر ان کی پیداوار حاصل کر لیتے ہیں اور چونکہ گندم زندگی کی غذائی ضروریات کے لیے لازم و ملزوم ہے لہٰذا گندم کی تجارت کرتے وقت اصل نقصان گندم کے پیداکاروں کو ہو جاتا ہے۔ بعض کاشتکار اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ کے ذرایع نہ ہونے کے سبب وہ اپنی فصلیں اور زرعی اجناس اونے پونے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔مختلف علاقوں کے کاشتکاروں کی جانب سے فصلوں کے لیے نہری پانی نہ ملنے کی شکایات اکثر آتی رہتی ہیں۔ وقت پر پانی نہ ملنے کی وجہ سے کھڑی فصلیں سوکھنے لگتی ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے نہری نظام میں خرابیوں میں مسلسل اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔ چھوٹے کاشتکار فصلوں کی سینچائی کے لیے وقت پر پانی اور کھاد نہ ملنے کی وجہ سے مسلسل پسماندگی کا شکار ہیں،جس کے نتیجے میں ہم اپنی ضرورت کی زرعی اجناس بھی باہر سے منگوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں چھوٹے چاول کاشت کار بے ترتیب اور بے اعتبار ہوتی ہوئی موسموں اور بارشوں اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث بار بار سیلاب کے واقعات سے تنگ آکر چاول کی کاشت کو آہستہ آہستہ خیرباد کہنے پر مجبور ہیں، اور اس کی جگہ سبزیوں کی کاشت کو ترجیح دے رہے ہیں،تاہم کم تعلیم اور کمزور مالی حالات کی وجہ سے وہ ان موسمیاتی تبدیلی کے زراعت پر منفی اثرات سے نمٹنے میں کم ہی کامیاب ہورہے ہیں اور ان کسانوں کی بھاری معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ملک میں کئی نقد آور غذائی اجناس کی فصلیں کاشت کی جاتی ہے تاہم زرعی پیداوار کی شرح بہت پست ہے،ملک کی میں شرح خواندگی خاصی کم ہے،گو کہ زراعت پر انحصار کرنے والے افرادکی تعداد بڑھ رہی ہے،لیکن زیرِ کاشت رقبے کو بڑھانے کا عمل بہت سست ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فی کس زیرِ کاشت رقبہ کم ہوگیا ہے۔ ہمارے کسان اور کاشتکار آج بھی لکڑی کے ہل، گوبر کی کھاد، غیر تصدیق شدہ مقامی بیج اور کاشتکاری کے قدیم طریقے استعمال کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کھاد، تصدیق شدہ معیاری بیجوں کی ایک منظم اور ترتیب، مشینی کاشتکاری کے اہم اور لازمی اجزاء ہیں۔ ہمارا کسان مشینی کاشت کو اختیار کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے کیونکہ اس کے پاس مالی وسائل کی بہت زیادہ کمی ہے، مرے پر سو درے کے مصداق اس کے پاس بہت کم خطہ اراضی ہے۔دوسری جانب کھاد،بیج اور اسپرے کے بعد زرعی آلا ت کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ جس سے نا صرف کسانوں بلکہ زرعی آلات کے کاروبار سے منسلک افراد کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، تاہم چھوٹے کسانوں کے لیے کاشتکاری ناممکن ہو جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں روٹا ویٹر کی قیمت ایک لاکھ 20 ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ 35 ہزار ہوگئی ہے۔ تھریشر،ہل،ٹرالی کی قیمت میں بھی دس سے پندرہ ہزار روپے اضافہ ہوگیا ہے۔ دکانداورں کا کہنا ہے کہ لوہا مہنگا ہونے پر وہ ہی نہیں کسان بھی پریشان ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ جس کی وجہ کسانوں کے مسائل۔کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی، جب کہ حکومتی ٹیکس کی بھرمار نے بھی کسانوں کی مشکلات بڑھا رکھی ہیں۔ زراعت کی اہمیت اس قدر ہے کہ ملکی آبادی کو خوراک کا بیشتر حصہ مہیا کرتا ہے۔ لیکن نہری نظام ہونے اور زمینوں کی زرخیزی کے باوجود بشمول اس سال کے کئی سال ایسے بھی گزرے ہیں جب لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنا پڑی، لیکن شاید ہماری حکومتوں اور میڈیا کے لیے یہ مسائل قابل غور اور قابل بحث نہیں۔ اس کے علاوہ فوڈ گروپ کی درآمدات کئی ارب ڈالرز کی ہوتی ہیں۔ ملکی صنعتوں کے لیے خام مال کی فراہمی شعبہ زراعت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بھی شعبہ زراعت ہے،اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود یہ شعبہ زرعی مسائل کا شکار ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے یہی صورت حال برقرار ہے کہ زرعی اشیا کی قیمتیں کم چلی آ رہی ہیں۔ مہنگائی کے باعث اب غریب کسانوں پر ایک ستم یہ بھی ہو رہا ہے کہ زرعی مداخل کی قیمتیں بڑھتی چلی آ رہی ہیں، لوڈشیڈنگ کے باعث ڈیزل اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث زرعی پیداواری لاگت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اس طرح آمدنیاں اور وسائل زرعی شعبے سے صنعتی شعبے کی جانب منتقل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے کئی ایسے اقدامات کیے گئے جس کے نتیجے میں زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کئی باتیں اقربا پروری کی نذر ہو گئیں، کچھ کو کرپشن نے لوٹ لیا اور بہت سے پروگرام کاغذی کارروائیوں کی نذر ہو کر رہ گئے۔ زرعی ترقیاتی ادارے بھی قائم ہوئے لیکن کوئی تحقیق نہ ہو سکی، اگر کچھ ہوا بھی تو کسان مستفید نہ ہو سکے۔ اس طرح کسان ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کے بجائے بہت سے زرعی مسائل میں گھر کر رہ گئے۔ مثال کے طور پر پیداوار کو خریدنے والے اونے پونے دام دے کر غریب کسانوں کو مایوس کر دیتے ہیں۔ ابھی جیسے ایک مثال آپ کے سامنے ہے، جیسے ہی پاکستان میں ٹماٹر تیار ہوئے ہیں تو جس ٹماٹر کا ریٹ کچھ دن پہلے سو سے ڈیڑھ سو تھا، اب وہ پندرہ سے بیس روپے کلو میں فروخت ہو رہا ہے، نتیجتاً کاشتکار اس فصل پر کیا گیا خرچہ بھی نہیں نکال پا رہے۔ اس مایوسی کے عالم میں جب یہ فیصلہ کر بیٹھتے ہیں کہ آیندہ سال فلاں جنس کی کاشت نہیں کی جائے گی تو ملک میں اس فصل کی پیداوار کم ہوتی ہے اور خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے کہ ایک طرف پیداوار کی کمی کا سامنا دوسری طرف اس شے کی درآمدات میں اضافے کے باعث قیمت میں اضافہ ہو کر عوام کو مہنگائی کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ابتدائی طور پر ہی حکومت اگر کسانوں کے زرعی مسائل حل کر دے تو عوام بھی بہت سے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی ناکامی کا سبب ہماری درآمد اور برآمدات میں عدم توازن
ہے۔1984 تا 2007 تک یہ عدم توازن 3ارب ڈالر تھا جب کہ یہ شرح اب 40 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ وہ محرکات اور اسباب تلاش کرنے چاہئیں جس کے سبب درآمدات و برآمدات میں عدم توازن چلا آ رہا ہے اس کا سدباب کیسے کرنا ہے اور کس طرح ملک کی معیشت میں توازن آسکتا ہے۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے منسلک ہے،قومی سطح پر ایک ایسی مربوط، فعال اور منظم زرعی پالیسی تشکیل دی جائے جس سے چھوٹے کسانوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوسکیں، شعبہ زراعت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو ممکن بنایا جا سکے، کیونکہ اگر کسی بھی شعبے کی ترقی مقصود ہو تو ضروری ہے کہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے، ملک میں زرعی انقلاب لانا،وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت مستحکم بنیادوں پر استوار ہو اور عام آدمی کو مہنگائی سے نجات دلانا ممکن ہوجائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں