ملکی ماحولیات شدید خطرے میں

کورونا اور ماحولیات کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو فنڈز دیے جائیں، عالمی معیشت اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہوگی، جب تک تمام ممالک پائیدار ترقیاقی مقاصد اورماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں کرتے۔ دنیا کو درپیش سہ جہتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے اپنے وژن کو اجاگر کیا ہے، جس میں کورونا وبا، اقتصادی ترقی کی بحالی اور ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والا خطرہ شامل ہے،جبکہ وزیراعظم پاکستان اقوام عالم کو روڈ میپ دے چکے ہیں، جس پر عمل کرکے پسماندہ اور ترقی پذیرممالک کے مسائل کا حل باآسانی نکالا جاسکتا ہے۔ ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان اور اس کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو تین ہزار آٹھ سو ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اسی وجہ سے سب سے زیادہ اقتصادی نقصانات اٹھانے والے ملکوں میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کئی طرح کی قدرتی آفات کی وجہ بننے والے انتہائی نوعیت کے موسمی حالات زمین پر انسانی آبادی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں، تاہم اس بارے میں نئے اعداد و شمار بہت حیران کن بھی ہیں اور پریشان کن بھی۔اسی تناظر میں کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات کے باعث پاکستان میں 10ہزار اموات ہوئیں اور پاکستان میں ترقیاتی اہداف کو موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرات کا سامنا ہے۔ غربت کا خاتمہ پاکستان کی پالیسی کا بنیادی حصہ ہے، تعلیم، معیشت اور برابری ترقی کے لیے اہم ہے۔ یواین او کے سیکریٹری جنرل نے واضح الفاظ میں پاکستان کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ اسی موقف کی تائید اور مزید پرکھنے کے لیے ہم اس رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں جوکہ عالمی ادارے جرمن واچ نے جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ان ممالک میں شمار کیا گیا ہے، جو ماحولیات سے بری طرح متاثر ہیں۔’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2020کے مطابق 1999سے لے کر 2018 تک کے بیس برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں سے جو ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے، پاکستان ان میں پانچویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پالیسیاں تشکیل دے کر ان پر عمل درآمد کررہے ہیں جب کہ ہمارے یہاں ماحولیاتی حوالے سے ماضی کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں نے ملک میں اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، اگر ہم مرحلہ وار چند اہم ترین نکات کا جائزہ لیں تو صورتحال کا حقیقی منظر نامہ ہمارے سامنے آسکتا ہے جیسا کہ عالمی حدت کی وجہ سے ملک کے شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشیئر ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ پاکستان کو اس وقت چار بڑے خطرات کا سامنا ہے، گلیشیئرز کا پگھلنا، کوئلے کا استعمال، اسموگ اور خشک سالی۔ کئی ساحلی علاقوں سے نقل مکانی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ اوماڑہ، پسنی، بدین، ٹھٹھہ، سجاول اور گوادر سمیت کئی علاقوں سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقے خشک سالی کے شکار بھی ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق پاکستان کے تقریباً پچیس فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں، لیکن ہمارے ملک میں پہلے ہی جنگلات صرف سات سے آٹھ فیصد رقبے پر تھے لیکن یہ رقبہ اب تین فیصد مزید کم ہو گیا ہے۔سندھ میں دو لاکھ ستر ہزار ہیکٹرز پر مشتمل ساحلی جنگلات اب ستر ہزار ہیکٹرز تک آ گئے ہیں۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک کا جنوبی حصہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی ضرر رسا گیسیں خارج کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 135 واں نمبر ہے، تاہم متاثرہ ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے، یہ تمام عوامل فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ اگر ہم وفاقی حکومت کے اقدامات کا جائزہ لیں تو ماحولیات کے درپیش چیلنجزسے نمٹنے کے لیے قومی خزانے سے 120 ملین ڈالر کی لاگت کے ساتھ ’بلین ٹری سونامی‘ منصوبے کے تحت ایک ارب درخت لگانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ حکومت نے آیندہ پانچ سالوں کے دوران ملک بھر میں مزید دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے قریب ایک ارب امریکی ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے، حکومت پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ’ری چارج پاکستان‘ کے نام سے ایک پراجیکٹ متعارف کروا رہی ہے۔اس منصوبے کے ذریعے سیلاب کے پانی کو ملک کی مختلف جھیلوں میں محفوظ کیا جائے گا، کیونکہ پاکستان میں پانی کی قلت سے زیادہ ’واٹر مینجمنٹ‘ کا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان میں صرف نو فیصد سیلاب کا پانی محفوظ کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان ملک میں مزید ڈیم بنانے کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں،کیونکہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے خبردار کیا ہے کہ 2025تک پاکستان میں پانی کی قلت ایک بحران کی شکل اختیار کرلے گی۔ کراچی میں 1945 میں آخری مرتبہ سونامی آیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحرہند میں کسی بڑے زلزلے کی صورت میں سونامی کی لہریں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی پہنچ سکتی ہیں اور یہ پورے شہر کو لے ڈوبیں گی۔پاکستان میں آخری سیلابی ریلوں نے ساڑھے اڑتیس ہزار اسکوائر کلومیٹر رقبے کو متاثر کیا تھا اور اس کے مالی نقصانات کا تخمینہ دس بلین ڈالر تھا۔ کراچی میں چار برس قبل آنے والی ’ہیٹ ویو‘ یا شدید گرمی کی لہر نے بارہ سو افراد کو لقمہ اجل بنا دیا۔
ماہرین کے مطابق مستقبل میں ایسے واقعات قدرتی آفات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ملک میں عید قرباں کی آمد ہے اور اس کے ساتھ ہی کورونا کی چوتھی لہر آنے کے خدشات نے سراٹھانا شروع کردیا ہے، خطرناک لہر سے بچاؤ کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں تو اقدامات اٹھا رہی ہیں، لیکن عوام کا چلن اور رویہ انتہائی منفی ہے، ان سطور کے ذریعے عوام سے درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی جانوں کے تحفظ کی خاطر کورونا ایس اوپیز پر عمل کرکے ملک کے باشعور باشندے ہونے کا ثبوت دیں، اسی طرز عمل کو اختیار کرنے میں پوری قوم کی فلاح کا راز پوشیدہ ہے۔یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورتحال سے پاکستان کیسے بچ سکتا ہے؟موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان کو سالانہ بنیادوں پر سات سے چودہ بلین ڈالر درکار ہیں۔ فی الحال یہ واضح نہیں کہ یہ فنڈز کہاں سے ملیں گے؟ سینیٹ نے پچھلے سال ایک پالیسی کی منظوری البتہ دے دی تھی، جس کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایک اتھارٹی قائم کی جانی ہے۔ 2015 میں طے ہونے والے پیرس کے معاہدے میں پاکستان نے 2030 تک ”گرین ہاؤس“ گیسوں کے اخراج میں تیس فیصد کمی لانے کا ہدف مقرر کیا تھا، اس پر تقریباً چالیس بلین ڈالر کے اخراجات آئیں گے، لیکن اہداف تاحال حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ حکومتی سطح پر پٹرول اور ڈیزل کی جگہ الیکٹرک کاریں درآمد کرنے کا فیصلہ بھی بہت بہتر ہے، لیکن ان کے علاوہ بھی حکومت کو بہت سارے اقدامات کرنے ہوں گے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنے کی مہم چلانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ان سطور کے ذریعے توقع کی جاسکتی ہے کہ حکومت اس ضمن میں ایک واضح پالیسی تشکیل دے کر اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں