ٹرمپ الیکشن میں دھاندلی کے بیانیے پرقائم

واشنگٹن: امریکی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج میں ڈیموکریٹ امیدواربائیڈن کی برتری واضح ہونے کے بعد بھی صدر ٹرمپ اپنی فتح اور انتخابات میں دھاندلی کے دعوے پر قائم ہیں۔

ایک بار پھر امریکی صدر نے مختلف ٹوئٹس میں اپنے دعوے دہرائے۔ انہوں نے سب سے پہلے ٹوئٹ داغا ’’میں الیکشن جیت چکا ہوں‘‘۔ ٹوئٹر نے اس پوسٹ کے ظاہر ہوتے ہی اس پر وضاحتی نوٹ دے دیا کہ سرکاری ذرائع انتخابات کے بارے میں کچھ اور بتاتے ہیں۔ اس سے اگلے ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے جارجیا میں جاری گنتی کو ’’جعلی‘‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہاں ووٹوں کی تصدیق کرنے نہیں دی جارہی۔ ٹوئٹر نے اس دعوے پر بھی خلاف حقیقت کی تنبیہ سے نشان زد کردیا۔

اسی دوران ایک اور دوا ساز کمپنی موڈرینا کی جانب سے اپنی تیار کردہ ویکسین کے 95 فیصد مؤثر نتائج آنے کی اطلاع پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ایک بار پھر چینی وبا قرار دیتے ہوئے ایک اور دعویٰ کیا کہ کورونا وبا کو روکنے کے لیے اہم دریافتیں ان کی زیر نگرانی ہوئی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ پنسلوینیا میں ان کی کمپین کی جانب سے کیا گیا مقدمہ واپس لینے کی جعلی خبر پھیلائی گئی۔ ہم الیکشن کے اپنے نگرانوں کو ہراساں کیے جانے اور گنتی کے عمل دور رکھنے کے کیس پر قائم ہیں۔ انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں اعلان کیا کہ وہ عدالت لپیٹ دیں گے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

اگرچہ سیاسی و قانونی مبصرین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی جانب سے شروع کی گئی قانونی چارہ جوئی سے انتخابی نتائج میں کوئی غیر معمولی تبدیل خارج از امکان ہے تاہم صدر ٹرمپ اپنے دعوؤں کے عین مطابق اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کررہے ہیں۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ کی جانب سے تاحال انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے اور اقتدار کی متنقلی کا عمل شروع نہ کرنے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ نومنتخب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو مسائل کا سامنا ہوگا۔ کیوں کہ امریکا میں کورونا کی دوسری لہر کی شدت بڑھ رہی ہے اور نئی انتظامیہ کو آئندہ برس جنوری میں امور مملکت سنبھالنے کے لیے اس دوران پہلے سے تیاری کرنا ہوگی۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ نو منتخب صدر کو تاحال دفاع، معیشت وغیرہ جیسے ریاستی امور سے متعلق باضابطہ ریاستی ذرائع تک رسائی نہیں دی گئی ہے۔ مبصرین کے مطابق آئندہ دنوں میں نومنتخب صدر جو بائیڈن کو اس تاخیر کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔