محمدبن قاسم…قسط نمبر/9

مرتب: محمدساجداشرفی

حارث علافی اور محمد بن قاسم کی یہ ملاقات تاریخی حیثیت کی حامل ہے، اگر یہ پانچ سو باغی عرب محمد بن قاسم کے خلاف داہر کی مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے تو محمد بن قاسم کی لڑائیوں کی تاریخ مختلف ہوتی، یہ محمد بن قاسم کے تدبر کا نہایت اہم مظاہرہ تھا کہ اس نے ان باغیوں کے سردار کو ملاقات پر آمادہ کر لیا ،علافی نے یہ وعدہ کر دیا تھا کہ وہ داہر کا ساتھ نہیں دے گا، لیکن امیر مکران محمد بن ھارون تذبذب میں میں پڑا رہا اسے توقع نہیں تھی کہ علافی نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا بھی کرے گا۔

محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو پیش قدمی کرنے کے لیے تیار کرلیا لیکن اسے مکران میں کم و بیش ایک مہینہ گزارنا پڑا ،اس تاخیر کی وجہ یہ ہوئی کہ بحری جہازوں سے جو سامان آرہا تھا اس میں سے ابھی کچھ سامان نہیں پہنچا تھا، اس سامان میں منجیقیں بھی تھیں اور سب سے زیادہ ضروری وہ بڑی منجیق تھی جس کا نام عروس تھا ،آخر منجیقیں بھی آگئی انہیں جہازوں سے اتار کر فوج کو کوچ کا حکم دے دیا گیا یہ 712عیسوی تھا۔

امیر مکران محمد بن ھارون بیمار تھا جب فوج روانہ ہونے لگی تو محمد بن قاسم نے دیکھا کہ امیر مکران گھوڑے پر سوار اسکی طرف آرہا ہے محمد بن قاسم نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور اس تک جا پہنچا۔

اب آپ آرام کریں۔۔۔ محمد بن قاسم نے اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لئے دونوں ہاتھ آگے کیے اور کہا۔۔۔ اور میرے لیے دعا کریں اور اپنی دعاؤں کے ساتھ مجھے اور میری فوج کو رخصت کریں۔

کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ میں کس لباس میں آیا ہوں ۔۔۔محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ کیا میرے سر پر خود نہیں دیکھ رہے، کیا میری کمر کے ساتھ تمہیں تلوار نظر نہیں آ رہی، تم میرے بچے ہوں میں تمہیں اکیلا نہیں جانے دوں گا، میں تمہارے ساتھ جانے کے لئے آیا ہوں ۔

تاریخیوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم اسے روک نہ سکا محمد بن ھارون اس کے باپ کی عمر کا آدمی تھا اس نے امیر مکران کو ساتھ لے لیا۔

محمد بن قاسم کا اصل ہدف دیبل تھا لیکن راستے میں قنز پور نام کا ایک شہر آتا تھا یہ شہر آج بھی موجود ہے آج اس کا نام پنجگور ہے، یہ ایک مضبوط قلعہ بند شہر تھا اسے نظر انداز بھی کیا جا سکتا تھا لیکن اس قلعے کی مضبوطی اور وسعت کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ داہر نے اس میں خاصی زیادہ فوج رکھی ہوں گی، اس لیے اس فوج کو بیکار کرنا ضروری سمجھا گیا۔

مورخوں نے لکھا ہے کہ جاسوسوں نے بھی یہی اطلاع دی تھی کہ اس قلعے میں فوج زیادہ ہے جسے نظرانداز کیا گیا تو یہ فوج خطرناک ثابت ہوسکتی ہے چنانچہ اس قلعے کو محاصرے میں لے لیا گیا۔

آگے جاکر اعلان کے گئے کہ قلعے کے دروازے کھول دیے جائیں اور قلعہ ہمارے حوالے کر دیا جائے اس صورت میں ہر شہری کو امان دی جائے گی اور ان کی عزت اور جان و مال کی پوری حفاظت کی جائے گی اور اگر ہم نے اپنی کوشش سے قلعہ فتح کر لیا تو کسی کے جان و مال کی حفاظت ہماری ذمہ داری نہیں ہوگی ہر شہری کو جزیہ دینا پڑے گا ،اس اعلان کے جواب میں قلعے کی دیواروں کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں یہ اعلان تھا کہ ہمت ہے تو قلعہ فتح کر لو۔

محمد بن قاسم نے قلعے کے دروازے توڑنے کے لئے آدمی آگے بھیجے لیکن اوپر سے برچھیوں اور تیروں کی ایسی بوجھاڑیں نے آئیں کہ یہ آدمی بری طرح زخمی اور شہید ہوئے۔

دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن جو بھی آگے گیا وہ لہولہان ہو کر وہیں گرا یا واپس آیا ،یہاں ضرورت محسوس ہونے لگیں کہ سب سے بڑی منجیق عروس کو استعمال کیا جائے، لیکن اس کا استعمال اتنا آسان نہیں تھا اس کی بجائے محمد بن قاسم نے چھوٹی منجیقوں سے شہر پر پتھر برسائے ان منجیقوں کو پیچھے ہٹانے کے لئے قلعے کی فوج نے دلیری اور جاں بازی کا یہ مظاہرہ کیا کہ قلعے کے تین چار دروازے کھلے اور اندر سے بہت سے گھوڑسوار تیرانداز نکلے وہ گھوڑے دوڑاتے ہوئے منجیقیں چلانے والوں پر تیر برساتے چلے گئے بیشتر اس کے کہ ان کا تعاقب کیا جاتا یا مسلمان سوار گھوڑے دوڑا کر قلعے میں داخل ہوجاتے ثچ کے تیر انداز سوار قلعے کے اندر چلے گئے اور دروازے پھر بند ہوگئے۔

دن پر دن گزرتے جا رہے تھے اور قلعہ پہلے کی طرح محفوظ کھڑا تھا ۔قلعے کی فوج کے حوصلے اور مزاحمت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی تھی ،محمد بن ھارون بیماری کے باوجود گھوڑے پر سوار قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑاتا اور سپاہیوں کو ہدایات دے رہا تھا محمد بن قاسم نے اسے کئی بار روکا کہ وہ پیچھے اپنے خیمے میں چلا جائے لیکن وہ ہر بار یہی جواب دیتا تھا کہ تم میرے بچے ہو میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔

ایک مہینہ گزر گیا معلوم ہوتا تھا کہ قلعے میں رسد اور خوراک کی کمی نہیں، ان علاقوں میں پانی سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی معلوم ہوتا تھا کہ قلعے کے اندر یعنی شہر میں پانی کی بھی کوئی کمی نہیں۔

قاسم کے بیٹے!،،،، ایک روز محمد بن ہارون نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ یہ قلعہ اتنی آسانی سے سر نہیں ہوسکے گا سرنگ لگانے کا انتظام کیا جائے یا دیواروں پر کمند پھینکی جاۓ۔

امیر مکران !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں یہ قلعہ سر کرسکتا ہوں لیکن میں اپنی جنگی طاقت یہیں پر زائل نہیں کرنا چاہتا، ہلہ بولنے کی بجائے ہم کچھ دن کچھ بھی نہیں کریں گے آرام سے بیٹھے گے لیکن شہر پناہ کے اندر کسی کو آرام اور چین نہیں ملے گا، ان کے پاس آخر کتنی خوراک ہو گی اور پانی کا ذخیرہ بھی ختم ہونے والا ہو گا، ہمیں اپنی طاقتیں یہیں صرف کر دینے کی بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ شہری بھوک اور پیاس سے مجبور ہو کر اپنی فوج کے لیے مصیبت کھڑی کردیں۔

محمد بن قاسم نے ایک اور مہینہ وہیں پر گزار دیا یہ پتا نہ چلایا جاسکا کہ شہر کے اندر خوراک اور پانی کی کیا کیفیت ہے، یہ تبدیلی دیکھی گئی کے شہر پناہ سے تیروں کی جو بوجھاڑ آتی رہتی تھی ان میں کمی آگئی، ایک روز فجر کی نماز کے فوراً بعد مسلمانوں کی فوج نے ان احکام کی تعمیل نہایت سرعت سے کی جو احکام محمد بن قاسم نے گزشتہ رات سالاروں کو دیے تھے، چھوٹی منجیقیں آگے لے گئے تھے اور تیرانداز منجیقوں کے ساتھ اور کچھ آگے رکھے گئے، قلعے کے دروازے کے سامنے سوار دستے تیار کھڑے کردیئے گئے تاکہ اندر سے سوار حملے کے لیے باہر نکلے تو ان پر ہلہ بول دیا جائے۔

سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ قلعے کے اندر پتھر گرنے لگے اب چونکہ منجیقیں آگے کر لی گئی تھیں اس لیے ان کے پھینکے ہوئے پتھر شہر پناہ کے اوپر سے جاکر شہر کے اندر گرتے تھے ،شہر پناہ سے منجیقوں پر تیر پھینکنے کے لئے ہندو تیر انداز نظر آئے ادھر سے مسلمان تیر اندازوں نے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیا منجیقوں کو بیکار کرنے کے لئے پہلے کی طرح قلعے کے دروازے سے ایک بار پھر کھلے بیشتر اس کے کے قلعے کے سوار تیر اندازی کے لئے باہر آتے مسلمان سواروں نے رات کے احکام کے مطابق گھوڑوں کو ایڑ لگائی اندر والے سوار باہر نہ آ سکے اور قلعے کے دروازے پر بند ہوگئے، مسلمان سوار قلعے میں داخل نہ ہو سکے لیکن ان کی یہ کامیابی بھی کافی تھی کہ انہوں نے شہر کے تیرانداز سواروں کو باہر نہ آنے دیا اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ منجیقیں شہر پر پتھر برساتی رہیں۔

سندھ کی تاریخ لکھنے والے تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ شہر میں ایک تو پانی کی قلت شہریوں کو پریشان کرنے لگی تھی اور پتھر تو پہلے بھی ان پر پھینکے گئے تھے لیکن اب ژالہ باری کی طرح پتھر گر رہے تھے، لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تین چار روز سنگ باری جاری رہی تو شہریوں نے واویلا بپا کردیا اور فوج کو مجبور کرنے لگے کہ قلعے پر سفید جھنڈا چڑھا دے، فوج خود تنگ آچکی تھی شہر کے اندر ایسی افراتفری پھیلی کے قلعہ دار کو بتائے بغیر کچھ لوگوں نے جن میں فوجی بھی شامل تھے شہرپناہ پر سفید جھنڈے چڑھا دیے پھر شہر کے دروازے کھل گئے ۔

محمد بن قاسم کی فوج قلعے میں داخل ہوئی قلعے دار کو حکم دیا گیا کہ جو جزیہ مقرر کیا جائے گا وہ شہریوں سے وصول کرکے فاتح فوج کے حوالے کیا جائے۔

قلعے میں جو فوج تھی اس کے کمانڈر سے لے کر سپاہیوں تک سب کو جنگی قیدی بنا لیاگیا ۔محمد بن قاسم وہاں رک نہیں سکتا تھا قلعے کے انتظامات کے لیے کچھ نفری وہاں چھوڑی گئی اور محمد بن قاسم نے اگلے شہر کی طرف کوچ کیا۔

اگلا شہر ارمن بیلہ تھا محمد بن قاسم نے جنگ کے نفسیاتی پہلو کو بھی سامنے رکھا اس نے قنزپور کے چند ایک شہریوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمان لشکر سے بہت آگے نکل جائیں اور ارمن بیلہ میں جا کر لوگوں کو بتائیں کہ وہ قلعے کو بچا نہیں سکیں گے، اور اگر بچانے کی کوشش کریں گے تو بہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے، یہ آدمی ارمن بیلہ چلے گئے بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے وہاں جاکر ایک تو یہ خوف پھیلایا کہ مسلمان بڑے زبردست لوگ ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی مشہور کیا کہ ان کے پاس معلوم نہیں جنات میں یا ایسی طاقت ہے کہ سارے شہر پر پتھروں کا مینہ برسا دیتے ہیں، دہشت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی طرف سے یہ اضافہ کیا کہ مسلمان جتنے دہشتناک لگتے ہیں دل کے اتنے ہی نرم اور رحم دل ہیں، ان کی فوج لوٹ مار نہیں کرتی اور شہریوں سے کچھ پیسے بطور جزیہ لے کر ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پوری حفاظت کرتی ہے۔

جب محمد بن قاسم کی فوج نے ارمن بیلہ کے قلعہ بند شہر کو محاصرے میں لیا تو وہاں بھی مزاحمت کا سامنا ہوا لیکن صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ مزاحمت برائے نام ہے مختصر یہ کہ کچھ دنوں بعد اس قلعے پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ محمد بن قاسم کے حملے کا پلان ایسا تھا کہ وہ اپنی فوجی طاقت کو بچا رہا تھا اور فوج کو اگلی لڑائیوں کے لئے تیار کر رہا تھا، اس کے لیے فوج کو آرام دینا بہت ضروری تھا ارمن بیلہ کو فوج کے آرام کے لئے بہترین جگہ تصور کیا گیا اس جگہ زیادہ دیر رکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کے امیر مکران کی بیماری تشویشناک حد تک پہنچ گئی طبیب جو فوج کے ساتھ تھے بیماری پر قابو پانے کی پوری کوشش کرتے رہے لیکن مرض قابو میں نہیں آ رہا تھا ،آخر ایک روز محمد بن ھارون خالق حقیقی سے جا ملا اسے ارمن بیلہ میں ہی دفن کردیا گیا

آج کا حیدرآباد اس زمانے میں نیرون کہلاتا تھا اس شہر کی بنیاد نبوت اور ہجرت مدینہ کے درمیانی عرصے میں رکھی گئی تھی، اس وقت کا اس کا نام نیرون تھا جب مغلوں نے اس علاقے کو فتح کیا تو اس کا نام حیدر آباد رکھ دیا گیا کیونکہ اسے حیدر قلی ارغون نے نئے سرے سے تعمیر کرایا تھا ،جب محمد بن قاسم قنز پور کو فتح کر چکا تو نیرون میں ایک سادھو داخل ہوا اس کے بال لمبے اور مٹی سے اٹے ہوئے تھے، اس نے جوگیا رنگ کا موٹے کپڑے کا لمبا سا کرتا پہن رکھا تھا، اس کے پاؤں میں لکڑی کی کھڑاویں تھیں اس کے پیچھے پیچھے کچھ اسی لباس میں ملبوس اس کے چیلے تھے، وہ شہر میں نعرے لگانے لگا۔۔۔۔ لوگوں گناہوں کی معافی مانگ لو آفت آ رہی ہے۔

لوگ اسے روکتے تھے لیکن ایسے لگتا تھا جیسے وہ کسی کی سن ہی نہیں رہا وہ دونوں بازو ہوا میں لہراتا تھا اور کچھ نہ کچھ بولتا جا رہا تھا۔

شہر خالی کردو۔۔۔ بھاگ جاؤ۔۔۔ آگ ہی آگ ہے۔۔۔ آسمان سے پتھر برسیں گے۔

اس کا انداز ایسا تھا کہ جو اس کی بات سنتا تھا وہ اثر قبول کرتا تھا لوگ اس کے چیلوں سے پوچھتے تھے کہ سادھو مہاراج کہاں سے آئے ہیں اور یہ کیا کہہ رہے ہیں؟

چیلے لوگوں کو بتاتے تھے کہ سادھو مہاراج تین چار مہینوں سے خاموش بیٹھے تھے ایک روز رات کو باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے تھے آخر ان کے منہ سے بڑی بلند آواز میں یہ الفاظ نکلے۔۔۔ آسمان سے پتھر برسیں گے۔

نیرون راجہ داہر کی عملداری میں تھا ،داہر تو کٹر برہمن تھا لیکن اس نے نیرون کا جو حاکم مقرر کر رکھا تھا وہ بدھ مت کا پیروکار تھا اس کا نام سندر تھا۔ راجہ داہر نے بدھ مت کے مندروں کو تقریباً بند کردیا تھا لیکن جہاں بدھ مت موجود تھے وہاں وہ کہیں نہ کہیں عبادت کرتے تھے۔

یہ سادھو اور اس کی صدائیں ایک ہی روز میں سارے شہر میں مشہور ہو گئی یہاں تک کہ حاکم نیرون سندر تک یہ صدائیں پہنچائی گئیں، اس نے حکم دیا کہ اس سادھو کو فوراً اس کے سامنے لایاجائے، سندر نے یہ ضرورت اس لئے محسوس کی تھی کہ اسے بتایا گیا تھا کہ سارے شہر پر خوف و ہراس طاری ہوچکا ہے، چونکہ ہندوؤں کا مذہب توہمات اور چند ایک اوٹ پٹانگ رسومات کا مجموعہ ہے اس لیے وہ سادھوؤں کی باتوں کو برحق مانتے تھے، آج بھی ہندوؤں کے مذہبی عقائد ویسے کے ویسے ہیں۔

حاکم نیرون کے آدمی سادھو کو اس کے پاس لے گئے اس نے سادھو سے پوچھا کہ وہ کیا صدائیں لگاتا پھر رہا ہے۔

یہ صدائیں میری نہیں۔۔۔ سادھو نے کہا ۔۔۔یہ آسمان کی آواز ہے، آسمان سے پتھر برسے گے ،سمندر پار سے ایک طاقتور راجہ آیا ہے اس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا، جس بستی کے لوگ اس کا مقابلہ کرتے ہیں اس پر وہ آسمان سے پتھر برساتا ہے۔

کیا تم عرب کی فوج کی بات کر رہے ہو؟،،،،، سندر نے پوچھا ۔۔۔وہ فوج جس نے قنزپور کو فتح کیا ہے۔

ہم قنزپور نہیں گئے۔۔۔ سادھو نے کہا۔۔۔ ہم دنیا کو تیاگ بیٹھے ہیں ،ہم جنگل میں رہتے ہیں ہم نے وہاں آسمان کی آوازیں سنی ہے۔

سادھو مہاراج!،،،،، سندر نے کہا ۔۔۔ہمیں صرف یہ بتا دیں کہ آپ کو میرے شہر پر اتنا رحم کیوں آیا ہے؟،،،،، کیا آپ دوسری بستیوں میں بھی گئے ہیں اور لوگوں کو خبردار کیا ہے۔

وہ سب پاگل ہیں ۔۔۔سادھو نے کہا ۔۔۔ان کے راجہ نے ان کو پاگل کیا ہے، اس شہر میں اس لئے آیا ہوں کہ یہاں کا راجہ ہندو نہیں بدھ ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ بدھ مت امن کا پرچار کرتا ہے اگر تیرے دل میں امن کی خواہش ہے تو اس سے پناہ مانگ جو پتھروں کا مینہ برساتا ہے، ہماری بات نہیں مانے گا تو خود بھی تباہ ہو گا اور اس شہر کی مخلوق کو بھی تباہ کرائے گا ،تیری اپنی بیٹیاں دوسروں کے قبضے میں چلی جائیں گی اور اس شہر میں کوئی جوان عورت نہیں رہے گی لوٹ مار ہوگی خون بہے گا آگ لگے گی نیکی کر اور اس مخلوق کو بچالے۔

یہ صحیح ہے کہ بدھ مت امن اور شانتی چاہتا ہے دنیا کا یہ واحد مذہب ہے جس کی تاریخ میں کسی لڑائی کا ذکر نہیں ملتا ،اس وقت جب نیرون راجہ داہر جیسے کٹر برہمن کی عملداری میں تھا بدھ مت کے پیروکار بھی کٹر تھے اور وہ راجہ داہر سے نالاں بھی تھے کہ وہ بدھ مت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور بدھوں پر بے پناہ تشدد کرتا ہے ،اس کے ساتھ اس سادھو کی صدائیں شامل ہو گئیں اور پھر یوں ہوا کہ جب یہ سادھو اپنے چیلوں کے ساتھ وہاں سے چلا گیا تو تین چار شتر سوار شہر میں داخل ہوئے وہ بڑی خستہ حالت میں تھے بات کرتے اور کانپتے تھے، انہوں نے کہیں بیٹھ کر لوگوں کو سنایا کہ وہ قنزپور سے سے بھاگ کر آئے ہیں، انہوں نے مسلمانوں کے حملے کا ذکر ایسے بھیانک طریقے سے کیا کہ سننے والوں پر خوف طاری ہو گیا انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی فوج کاسیلاب اس طرف آ رہا ہے اور جب وہ آتے ہیں تو بستیوں پر بڑے بڑے پتھر گرتے ہیں۔

ان کی سنائی ہوئی یہ خوفناک باتیں جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئیں، اور حاکم نیرون کے کانوں تک جا پہنچیں۔

نیرون میں راجہ داہر کے احکام پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج مکران میں اتر آئی ہے اور اب وہ پہلے والی فوج نہیں بلکہ یہ بڑی طاقتور فوج ہے ،جب محمد بن قاسم نے قنزپور فتح کر لیا تو راجہ داہر نے پھر اپنے راج کے تمام قلعوں کو اطلاع بھیجی کہ مسلمانوں نے قنزپور فتح کر لیا ہے ،داہر نے سب کو یہ پیغام بھی بھیجا کہ مسلمانوں کے پاس ایسا انتظام ہے کہ وہ قلعوں کے اندر بڑے بڑے پتھر پھینک سکتے ہیں، داہر نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ان پتھروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔

حاکم نیرون کے لیے یہ پتھر عجیب چیز تھی اس کے علاوہ وہ بدھ تھا اس نے جب اپنے شہر کی آبادی کو دیکھا ہوگا تو یقیناً اس کے دل میں آئی ہو گی کہ ان بے گناہ کو مروانا کتنا بڑا پاپ ہے۔

محمد بن قاسم ارمن بیلہ میں اپنی فوج کو دیبل پر حملے کے لیے تیار کر رہا تھا اس کی اگلی منزل دیبل تھی اور وہ جانتا تھا کہ ہار جیت کا فیصلہ دیبل کے میدان جنگ میں ہی ہوگا ۔فوج آرام بھی کر رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی محمد بن قاسم اسے قلعہ شکنی کی ٹریننگ بھی دے رہا تھا اور فوج کو خطبے کی صورت میں یہ بتاتا تھا کہ اس جنگ کا مقصد ملک گیری نہیں۔

انہی دنوں اسے اطلاع دی گئی کہ دو اجنبی ہندو اس سے ملنا چاہتے ہیں، اس نے دونوں کو بلایا یہ دونوں اجنبی سندھی لباس میں تھے ان کے ماتھے پر تلک لگے ہوئے تھے، اور وہ ہر لحاظ سے برہمن لگتے تھے، لیکن وہ جب محمد بن قاسم کے سامنے گئے تو انھوں نے السلام علیکم کہا۔

تم دونوں نے مجھے خوش کرنے کے لئے میرے مذہب کا سلام کیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اگر یہ سلام تمہارے دل سے نکلے تو تم روحانی سکون محسوس کرو گے، کیا تم ان الفاظ کے معنی سمجھتے ہو؟

آپ پر سلامتی ہو۔۔۔ ان میں سے ایک نے جواب دیا۔

تمہیں یہ معنی کس نے بتائے ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے پوچھا۔

یہ ہمارے اپنے مذہب کے الفاظ ہیں ۔۔۔ایک نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ ہم دونوں مسلمان ہیں اور ہمیں اپنے سردار حارث علافی نے بھیجا ہے ۔

اس نے کوئی پیغام دیا ہے۔

ہاں سالار اعلی !،،،،،ایک نے جواب دیا۔۔۔ دیبل سے آگے ایک شہر ہے جس کا نام نیرون ہے وہاں کا حاکم بدھ ہے وہ راجہ داہر کا مقرر کیا ہوا حاکم ہے، لیکن اس نے راجہ داہر کو بتائے بغیر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا ہے اس نے چوری چھپے اپنے دو تین آدمیوں کو بصرہ بھیجا تھا، وفد آپ کے چچا حجاج بن یوسف سے مل کر واپس آ گیا ہے، حاکم نیرون حجاج کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں لڑے گا، اس کی بجائے وہ امن کا وعدہ کرتا ہے، اور اس پر جو جزیہ عائد کیا جائے گا وہ بخوشی ادا کرے گا،،،،،،حجاج نے امن کا یہ معاہدہ قبول کر لیا ہے، لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جزیہ کتنا مقرر ہوا ہے البتہ یہ پتہ چلا ہے کہ حجاج نے حاکم نیرون کو پیغام بھیجا ہے کہ اس کی اس کے خاندان کی اور اس کے شہر کے لوگوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمان فوج پر ہو گی، اور مسلمان فوج کی طرف سے اسے دوستی اور محبت ملے گی۔

کیا یہ معجزہ نہیں ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔ یقین نہیں آتا کہ راجہ کے حاکم نے اپنے آپ ہی ایک شہر حملہ آوروں کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کے حوالے کر دیا ہو، مجھے یہ خبر غلط معلوم ہوتی ہے ،حارث علافی کے دل میں کچھ اور تو نہیں؟

نہیں سالار اعلی !،،،،،ان دونوں میں سے ایک نے کہا ۔۔۔اسے آپ معجزہ نہ سمجھے یہ ہم دونوں کا کارنامہ ہے میں سادھو بن کر نیرون گیا تھا اور وہاں کے لوگوں پر خوف طاری کر دیا تھا میرا یہ دوست میرے ساتھ تھا دو اور آدمی بھی میرے ساتھ تھے ،یہ میرے چیلوں کے بھیس میں تھے یہاں کے لوگوں وہمی ہیں آفات سے بہت ڈرتے ہیں ،ہم نے نیرون میں اتنا خوف و ہراس طاری کر دیا تھا کہ حاکم شہر نے مجھے بلایا ،۔میں نے اس پر بھی خوف و ہراس طاری کردیا، لیکن ایسی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ وہ بدھ مت کا پیروکار ہے اور بدھ لڑنا تو دور کی بات ہے ہتھیار کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔

کیا تم یہ کارنامہ دوسرے شہروں میں بھی کرسکتے ہو؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔

نہیں سالار اعلی!،،،،، محمد بن قاسم کو جواب ملا ۔۔۔باقی تمام شہروں کے حاکم ہندو ہیں اور کہیں نہ کہیں پکڑے جانے کا خطرہ بھی ہے ،پھر بھی ہم اس کوشش میں ہیں کہ آپ کے لیے راستہ صاف کرتے رہیں، لیکن ہمارے سردار حارث علافی نے کہا ہے کہ اسی پر بھروسہ نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑنے کی اہلیت اور جذبے میں کمی آجائے۔

میری اگلی منزل دیبل ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ وہاں کیا ہے؟،،، کتنی فوج ہے؟،،، مزاحمت کیسی ہوگی؟،،،، مجھے ان سوالوں کے جواب کون دے گا ؟،،،،تم خود لڑنے والے ہو تم جانتے ہو کہ محاصرے کی کامیابی کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

آپ کو ان سوالوں کے جواب دینے کی پوری کوشش کریں گے۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ لیکن ہمارا کام مشکل ہوگیا ہے، دو پہلے ہاتھ سے نکل جانے سے راجہ داہر دیبل کے دفاع کو مضبوط کر رہا ہے، کسی اجنبی کو شہر کے اندر جانے اور باہر آنے سے روکا جاتا اور اسے ڈھونک بجا کر دیکھا جاتا ہے۔

داہر کہاں ہے؟

اروڑ میں۔۔۔ علافی کے ایک آدمی نے جواب دیا۔۔۔ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ دیبل آئے گا یا نہیں ،ہم یہ جانتے ہیں کہ اس نے تمام سرداروں کو احکام بھیجے ہیں کہ فوجی قلعوں کے اندر رہے گے کوئی فوج باہر نکل کر نہیں لڑیں گی۔

ہم آپ کو خبردار کرتے ہیں سالار اعلی!،،،،، علافی کے دوسرے آدمی نے کہا ۔۔۔مقابلہ بہت سخت ہوگا میرا خیال ہے کہ راجہ داہر اروڑ میں ہی رہے گا اور وہ اس وقت آپ کے سامنے آئے گا جب آپ کی فوج کم ہو چکی ہو گی، اور باقی تھکن سے چور ہو گی، یہ سوچنا آپ کا کام ہے کہ ایسی صورتحال سے آپ کس طرح بچ سکتے ہیں۔

محمد بن قاسم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کیا ،اسے یہ اطمینان ہو گیا کہ یہ باغی عرب اس کے ساتھ ہیں اور ان کی طرف سے اسے کوئی خطرہ نہیں۔

پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سندھ سے بصرہ تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں بنا دی گئی تھی جن میں تیزرفتار اونٹ اور بڑی اچھی نسل کے گھوڑے رکھے گئے تھے قاصد جو آتے جاتے تھے وہ ان چوکیوں سے گھوڑے اور اونٹ تبدیل کرتے تھے ہر چوکی سے تازہ دم گھوڑا یا اونٹ مل جاتا تھا اس طرح سندھ اور بصرہ کے درمیان پیغام رسانی میں صرف ایک ہفتہ لگتا تھا۔

محمد بن قاسم اپنی کامیابی کی اطلاعیں پوری تفصیل سے حجاج کو بھیج رہا تھا، ایک روز اسے بصرہ سے حجاج کا پیغام ملا جس میں حجاج نے پہلی بات یہ لکھی کہ دیبل سے آگے نیرون ایک شہر ہے اس کے حاکم اعلیٰ نے ہم سے امان مانگی اور جزیہ کی ادائیگی قبول کی ہے، اور ہم نے انہیں امان دے دی ہے۔ حجاج نے محمد بن قاسم کو جو ہدایات لکھی ان کا متن مورخوں نے اس طرح لکھا ہے۔

،،،، اور جب تم سندھ میں داخل ہو جاؤ تو اپنی خیمہ گاہوں کے تحفظ کا انتظام کرو جوں جوں دیبل کے قریب ہوتے جاؤ احتیاط میں سخت ہوتے جاؤ، جہاں خیمہ زن ہوتے ہو وہاں ارد گرد خندق کھودو، اور رات کو بیداراورچوکس رہو زیادہ وقت جاگو نیند کم کر دو، فوج کے جو مجاہد قرآن پڑھ سکتے ہیں وہ تلاوت قرآن کرتے رہیں ،جو نہیں پڑھ سکتے وہ رات دعا اور عبادت میں گزاریں، اور تم اور تمہارے مجاہد ذکر الہی ہر وقت زبان پر رکھیں اللہ تبارک وتعالی سے فتح و کامرانی مانگتے رہو، عجز و انکساری سے، اور اللہ سے فتح کی امید رکھو کبھی کبھی لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد کرو اور اللہ تعالی سے مدد مانگو،،،،،،،

اور جب تم دیبل کے قریب پہنچ جاؤں تو روک جاؤ ،اور پڑاؤ کے اردگرد بارہ گز چوڑی اور چھ گز گہری خندق کھودلو ،دشمن تمہیں للکارے تو جواب نہ دو ،دشمن دشنام طرازی کرے مشتعل کرے برداشت کرو ،اور خاموش رہو ،اس وقت تک لڑائی شروع نہ کرو جب تک میری ہدایت تم تک نہ پہنچ جائے ،پھر میری ہدایت کے ہر لفظ پر عمل کرنا ان شاءاللہ فتح تمہاری ہو گی۔

محمد بن قاسم نے دیبل تک کے علاقے کی دیکھ بھال کے لئے اپنے جاسوس سندھی لباس میں آگے بھیج دیے تھے ان میں سے جو بھی پیچھے آتا تھا وہ یہی بتاتا تھا کہ شہر کے دروازے بند ہیں اور باہر سندھ کی فوج کی کہیں بھی کوئی سرگرمی یا حرکت نظر نہیں آتی، ان رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ داہر میدان میں لڑنے سے گریز کررہا ہے۔

اس دوران ان عربوں کی بستی میں ایک واقعہ ہو گیا جنہیں راجہ داہر نے پناہ دے رکھی تھی اور جن کا سردار حارث علافی تھا۔

ان کی بستی مکران اور سندھ کی سرحد پر تھی ،محمد بن قاسم نے مفتوحہ علاقے میں جو چوکیاں قائم کی تھیں ان میں ایک چوکی اس بستی کے قریب تھی، ہرچوکی کے چار چار گھوڑسوار یا شتر سوار اپنے اپنے علاقے میں گشت پر نکلا کرتے تھے۔

یہ چوکی جو باغی عربوں کی بستی کے قریب تھی ایسی جگہ بنائی گئی تھی جہاں کچھ سبزہ تھا اور اس سبزے میں گھرا ہوا ایک چشمہ تھا ،اس علاقے میں ھری بھری سی چٹانیں بھی تھیں، کبھی کبھی باغی عربوں کی عورتیں گھومنے پھرنے کے لیے ادھر آ نکلتی تھیں، لیکن یہ جگہ بستی کے اتنے قریب بھی نہیں تھی کہ وہاں عورتوں کا میلہ سا لگا رہتا، کبھی کبھار دوچار جوان لڑکیاں وہاں چلی جایا کرتی تھیں۔

ایک روز بستی کی تین جوان اور شادی شدہ لڑکی اس جگہ گئیں، کچھ دیر بعد ان میں سے دو لڑکیاں چینختی چلاتی گھبراہٹ کے عالم میں دوڑتی واپس آئیں، تیسری لڑکی ان کے ساتھ نہیں تھی، بستی کے سب لوگ باہر نکل آئے ان لڑکیوں نے بتایا کہ وہ چشمے کے قریب پہنچے تو عرب سے آئی ہوئی فوج کے چار آدمی جو گھوڑے پر سوار تھے وہاں آگئے لڑکیوں کے قریب آ کر چاروں گھوڑے سے اترے اور لڑکیوں پر جھپٹ پڑے، یہ دو لڑکیاں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں، لیکن انہوں نے تیسری لڑکی کو پکڑ لیا، اتنا سننا تھا کہ ان تینوں لڑکیوں کے خاوند اور کئی اور آدمی تلواریں اور برچھیاں لئے چشمے کی طرف دوڑ پڑے تیسری لڑکی اس حالت میں واپس آتی ہوئی دکھائی دی کہ وہ قدم گھسیٹ رہی تھی اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے سر پر اوڑھنی نہیں تھی، بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ روتی ہوئی چلی آ رہی تھی ،اس کے خاوند نے دوڑ کر اسے سہارا دیا تو وہ خاوند کے بازو میں گر پڑی، اس سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے وہ بے ہوش ہو چکی تھی ،جو آدمی وہاں پہنچے تھے ان کی یہ حالت ہو گئی جیسے وہ محمد بن قاسم کی ساری فوج کو قتل کردیں گے ۔

یہ ہے وہ فوج جس کی مدد ہمارا سردار حارث علافی کرنا چاہتا ہے۔

خدا کی قسم عرب تو ایسے تو نہ تھے ،یہ سب بنوامیہ کے لوگ ہیں ابھی اس چوکی پر چلو کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے، چلو ابھی چلو کتنی آدمی ہوں گے دس بارہ وہی تو ہیں سب کو صاف کر دو۔

ایک طوفان تھا جو ان سب کے سینوں سے اٹھ رہا تھا یہ سب عرب کی پیداوار تھے اتنے بڑے جرم کو وہ بخشنے کے لئے تیار نہیں تھے۔

ان میں سب قتل کی بات کرتے تھے، اور کچھ ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ان سب کو اکٹھے کھڑے کرکے سنگسار کر دو۔

دو تین نے یہ سزا تجویز کی کے انہیں گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر اس وقت تک گھوڑے دوڑاتے رہو جب تک کے ان کی کھالیں اتر نہ جائیں۔

وہ اس چوکی کی طرف چل ہی پڑے تھے کہ حارث علافی گھوڑا دوڑاتا پہنچ گیا، اس کے ساتھ تین چار اسی کی عمر کے بوڑھے آدمی تھے جو اونٹوں پر سوار تھے علافی کو دیکھ کر سب واہی تباہی بکنے لگے۔

علافی انہیں خاموش کرانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔

تم ہمارے برادر ہو۔۔۔ اس لڑکی کے خاوند نے بڑے غضب ناک لہجے میں علافی سے کہا۔۔۔ تمہارا حکم ماننا ہمارا فرض ہے لیکن آج ہم تمھارا صرف یہ حکم مانیں گے کہ اس چوکی کے تمام آدمیوں کو قتل کر دیا جائے۔

تم کہتے ہو کہ ہم عرب سے آئی ہوئی فوج کو اپنی فوج سمجھیں۔۔۔ ایک اور آدمی بولا ہم اس فوج کے سالار کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔

خاموش کیوں ہو سردار حارث!،،،، لڑکی کے خاوند نے چلا کر علافی سے کہا۔۔۔ شرمسار ہو کچھ بولو اور ہمیں حکم دو۔

ان چار آدمیوں کی سزا یقینا موت ہے۔۔۔ حارث علافی نے کہا ۔۔۔لیکن مجھے اتنی مہلت دو کے میں ان کے سالار سے ملوں۔

کس سالار کی بات کرتے ہو۔۔۔ ایک ادھیڑ عمر عرب نے کہا۔۔۔ کیا بھول رہے ہو کہ وہ حجاج کا بھتیجا ہے ،اور یہ وہ حجاج ہے جس کی وجہ سے ہم جلاوطن ہوئے ہیں، بنو امیہ کی خلافت کی روٹیوں پر زندہ رہنے والا حجاج ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے، اس کے پالے ہوئے بھتیجے کے ساتھ تم کیا بات کرو گے وہ کہے گا کہ یہ جھوٹا الزام ہے۔

مت بھولو کہ ہم عرب ہیں۔۔۔۔علافی نے کہا۔۔۔ ہمارے کچھ روایات ہیں ہمارے کچھ رواج ہیں، میں نے محمد بن قاسم کے ساتھ کچھ وعدے کیے ہیں اور کچھ وعدے اس نے میرے ساتھ کیے تھے، اچانک علافی کی آواز میں جوش پیدا ہو گیا اور اس کی آواز بہت اونچی ہو گئی اس نے تلوار نکال کر کہا ۔۔۔اگر حجاج کے بھتیجے نے مجھے یہ کہا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور اس کے سپاہیوں نے ہماری لڑکی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی تو اس تلوار پر تم محمد بن قاسم کا خون دیکھو گے، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کے محافظ میرے جسم کو برچھیوں سے چھلنی کر دیں گے، مجھے اس کے پاس جانے دو اگر وہ اپنے سپاہیوں کو بچانے کی کوشش کرے گا تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ،میں تم سب سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں نے جو کہا ہے وہ کر کے دکھاؤں گا۔

یہ لوگ اس قدر بھڑکے ہوئے تھے کہ ان پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آ رہا تھا ،لیکن ان جلاوطن عربوں میں اتنا ڈسپلن موجود تھا کہ انہوں نے اپنے سردار کے وعدے کو تسلیم کر لیا اور لڑکی کو گھوڑے پر بٹھا کر لے آئے۔ اس وقت تک رات گہری ہوچکی تھی محمد بن قاسم رومن بیلہ میں تھا جو کچھ لمبی مسافت، تھی حارث علافی نصف شب سے کچھ پہلے دو آدمیوں کے ساتھ چل پڑا۔

علافی اور اس کے ساتھیوں کو دور سے فجر کی اذان کی آواز سنائی دی انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دیں تاکہ نماز تک پہنچ جائیں گے، یہ اذان اومن بیلہ کی آواز تھی یہ تینوں قلعے کے دروازے پر پہنچے تو دروازہ بند تھا ان کے لیے دروازہ اتنی جلدی نہیں کھل سکتا تھا لیکن محمد بن قاسم نے حکم دے رکھا تھا کہ سردار حارث علافی جب بھی آئیں تو اس کے لئے دروازہ کھول دیا جائے، لہذا ان کے لئے دروازہ کھول دیا گیا اور وہ عین اس وقت پہنچے جب جماعت کھڑی ہو رہی تھی، انہوں نے پچھلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی نماز کے بعد علافی نمازیوں کے ہجوم کو چیرتا محمد بن قاسم تک پہنچا، محمد بن قاسم اسے اتنی سویرے دیکھ کر حیران ہوا۔

آپ پر اللہ کی رحمت ہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ آپ کوئی بہت بڑی خبر لائے ہیں۔

ہاں قاسم کے بیٹے!،،،، علافی نے کہا۔۔۔ خبر بہت بڑی ہے اور بہت بری بھی۔

اس کے بولنے کا انداز ایسا تھا کہ محمد بن قاسم کے چہرے پر گھبراہٹ آگئی اس نے کچھ بھی نہ کہا اور علافی اس کے دونوں ساتھیوں کو اپنے کمرے میں لے گیا یہ قلعہ تھا جس میں قلعہ دار کی رہائش بڑی شاہانہ تھی۔

ابن قاسم !،،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔۔اگر علافیوں کے ساتھ دوستی سچے دل سے لگائی ہے تو آج دوستی کا حق ادا کر دے۔

حق ادا کرونگا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اگر آپ کوئی احسان کرکے اس کا صلہ مانگتے ہیں تو اپنے منہ سے کہیں میں اتنا ہی صلہ دوں گا۔

حارث علافی نے اسے یہ سارا واقعہ سنا دیا کہ اس کے سپاہیوں نے کس طرح تین لڑکیوں پر جھپٹ کر ایک لڑکی کو خراب کیا ہے۔

یہ سن کر محمد بن قاسم پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔

میرے عزیز!،،،، علافی نے کہا۔۔۔ میں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اور ان تمام عربوں کو جو یہاں رہتے ہیں اور جنہیں تمہارا خلیفہ باغی کہتا ہے بڑی مشکل سے رضامند کیا تھا کہ وہ عرب سے آئی ہوئی فوج کی اگر کھلم کھلا مدد نہ کرے تو درپردہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں، اور اگر دل یہ بھی نہ مانے تو اتنا ہی کریں کہ ان کے خلاف ہماری طرف سے کوئی کاروائی نہ ہو، لیکن اب میری بستی کا یہ عالم ہے کہ اگر تم وہاں چلے جاؤ تو معلوم نہیں کتنی برچھیاں تمہارے جسموں پر اتر جائیں گی، میں انہیں ایک وعدے پر ٹھنڈا کر کے آیا ہوں اگر میں ضرورت سے زیادہ ان کی توقع کے خلاف وقت لگا کر واپس گیا تو شاید وہ مجھے راستے میں ہی مل جائیں اور مجھے ہی قتل کردیں۔

ہاں حارث!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ انہیں اس سے زیادہ مشتعل ہونا چاہیے یہ واقعہ ایسا نہیں کہ لوگوں کو باتوں سے ٹھنڈا کیا جا سکے۔

مجھے بتا قاسم کے بیٹے۔۔۔ حارث علافی نے کہا ۔۔۔تو کیا کرے گا ،کچھ نہیں کرنا تو مجھے بتا میں کیا کروں؟

میں دیبل پر حملہ کروں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ لیکن اس معاملے کو میں سب سے پہلے مٹاؤں گا۔

محمد بن قاسم نے اسی وقت اپنا گھوڑا منگوایا اور علافی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ چل پڑا دستور کے مطابق چند ایک محافظ اس کے ساتھ گئے۔ خالد بن ولید نے جاسوسی کے نظام کو ایک خاص تنظیم دی تھی اور جس طرح انہوں نے اس نظام کو چلایا تھا وہ اتنا کامیاب رہا تھا کہ یہ عرب کی فوج کا لازمی حصہ بن گیا تھا، بعد میں جاسوسی کا ایک الگ محکمہ بنا دیا گیا تھا ،جس کے لیے الگ سالار مقرر کردیا گیا تھا لیکن اس محکمے کی سالاری اس آدمی کو ملتی تھی جس میں زمین کی تہوں کے نیچے سے بھی راز اور سراغ نکال لانے کی اہلیت ہوتی تھی، محمد بن قاسم کے ساتھ انٹیلی جنس کا سالار تھا اس کا نام شعبان ثقفی تھا یہ محمد بن قاسم کے اپنے قبیلے کا آدمی تھا ،اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے پاس کوئی جادو ہے کہ وہ زمین وآسمان ے راز بھی پا لیتا ہے، محمد بن قاسم جب علافی کے ساتھ روانہ ہوا تو شعبان ثقفی بھی اس کے ساتھ گیا محمد بن قاسم نےخاص طور پر اسے ساتھ لیا تھا۔

حارث علافی اور اس کے ساتھی بھی گھوڑوں پر سوار تھے انھیں توقع تھی کہ دوپہر تک بستی تک پہنچ جائیں گے لیکن محمد بن قاسم نے قلعے سے نکلتے ہی گھوڑا دوڑا دیا یوں پتہ چلتا تھا جیسے وہ اڑ کر ورادات والی چوکی تک پہنچنے کی کوشش میں ہو، وہ ان سب سے آگے تھا اس نے شعبان ثقفی کو اپنے ساتھ رکھا تھا اور اس کے ساتھ وہ باتیں کرتا جا رہا تھا۔

دوپہر سے خاصا پہلے وہ چوکی تک پہنچ گئے اپنے سالار کو دیکھ کر چوکی کے تمام آدمی باہر نکل آئے محمد بن قاسم پیچھے ہٹ آیا اور شعبان ثقفی چوکی کے آدمیوں کے قریب گیا اور ان سے پوچھا کہ کل پچھلے پہر سے شام تک گشت پر کون کون نکلا تھا ،چار سپاہیوں نے ہاتھ کھڑے کیے۔

کیا تم چاروں نے ان تین لڑکیوں پرحملہ کیا تھا؟،،، شعبان نے پوچھا۔۔۔ یا تم میں کوئی ایسا بھی تھا جس نے اس جرم میں شریک ہونا پسند نہ کیا ہو۔

چاروں حیرت سے شعبان کی طرف دیکھنے لگے۔

تم دیکھ رہے ہو کہ سالار اعلی ساتھ آئے ہیں۔۔۔ شعبان نے کہا ۔۔۔اس سے سمجھ لو کہ یہ معاملہ کتنا سنگین ہے، اور تمھارا جرم بے نقاب ہو چکا ہے۔

دشمن کی زمین پر کھڑے ہو کر اپنی زبان ناپاک نہ کر۔۔۔ ایک سپاہی نے غصیلی آواز میں کہا۔

وطن سے دور لا کر ہمیں یوں ذلیل نہ کر سالار۔۔۔۔اس سپاہی کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور سپاہی اس سے زیادہ غصیلی اور بلند آواز سے محمد بن قاسم کی طرف ہاتھ لمبا کرکے بولا ۔۔۔اے سالار عرب تجھے اس اللہ کی قسم جس کے نام پر لڑنے کے لئے تو ہمیں یہاں لایا ہے ہمیں یہ بتا کہ یہ شخص ھم پر ایسی تہمت کیوں لگا رہا ہے، ہم تیری ٹکر کے آدمی نہیں۔

محمد بن قاسم نے کچھ بھی نہ کہا اس نے یہ تفتیشی کام شعبان ثقفی کے سپرد کردیا اور یہ شعبان کا ہی کام تھا۔

چاروں سپاہی احتجاجی واویلا بہا کر رہے تھے۔ علافی اور اس کے ساتھی الگ کھڑے دیکھ رہے تھے۔

حارث علافی!،،،،،، شعبان نے کہا۔۔۔ تینوں لڑکیوں کو بستی سے اپنے ساتھ لے آؤ اور جتنے بھی لوگ ان کے ساتھ آنا چاہیں آجائیں۔ علافی کے جانے کے بعد سالار شعبان نے چوکی کے کمانڈر سے کہا کہ اس وقت جو آدمی گشت پر گئے ہوئے ہیں انہیں بھی یہاں لے آئیں، کماندار کے جانے کے بعد محمد بن قاسم اور شعبان الگ جا کھڑے ہوئے اور آپس میں باتیں کرتے رہے ،پہلے صرف چار سپاہی واویلا باپا کر رہے تھے، علافی کے جانے کے بعد چوکی کے تمام سپاہیوں نے کچھ نہ کچھ بولنا شروع کردیا، محمد بن قاسم میں اتنا تحمل تھا اور اتنی بردباری کے سپاہیوں نے بعض باتیں ایسی ناروا کی جو کوئی سپاہی بھی برداشت نہیں کرسکتا لیکن محمد بن قاسم خاموشی سے سنتا رہا ۔

آخر شعبان ثقفی نے انہیں تسلی دی کہ بے انصافی نہیں ہوگی۔

سالار اعلی!،،،،، ایک ادھیڑ عمر سپاہی نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے یہ لوگ جو آپ کے ساتھ آئے ہیں یہ باغی لوگ ہیں جنھیں عرب سے نکال دیا گیا تھا اور سندھ کے راجہ نے انہیں اپنی شفقت کے سائے میں رکھ لیا ہے۔

ہاں یہ وہی لوگ ہیں۔۔۔ چوکی کے ایک سپاہی نے ہی کہا۔۔۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ ہم میں سے نہیں یہ یہاں کے ہندو راجہ کا نمک حلال کر رہے ہیں ،میں کہتا ہوں کہ ہندوؤں سے پہلے ان مسلمانوں کو صاف کیا جائے ،یہ ہمارے بدترین دشمن ہیں۔

کیا تم لوگ اپنی زبانیں بند نہیں رکھ سکتے؟،،،،،، شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔میں کہہ چکا ہوں کہ کسی کے ساتھ نہ انصافی نہیں ہوگی انصاف ہوگا۔
صاف نظر آ رہا تھا کہ ان سپاہیوں کے دلوں میں باغی عربوں کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔

علافی تینوں لڑکیوں کے ساتھ دور سے آتا نظر آیا، پیچھے پیچھے بستی کے کئی آدمی آرہے تھے ،شعبان نے ان کی طرف گھوڑا دوڑا دیا اور انہیں دور ہی روک لیا۔

اس کے پوچھنے پر اس لڑکی کو آگے کیا گیا جس کے متعلّق کہا گیا تھا کہ اس کے ساتھ مجرمانہ زیادتی ہوئی ہے۔

چشمہ قریب ہی تھا اور چشمہ بھربھری سی چٹانوں میں گھرا ہوا تھا ،شعبان اس لڑکی کو ان چٹانوں کی اوٹ میں لے گیا اور اس سے اپنی زبان میں پوچھا کہ وہ کون سی جگہ ہے جہاں ان پر اور اس کی سہیلیوں پر سپاہیوں نے حملہ کیا تھا۔

لڑکی شعبان کے منہ کی طرف دیکھنے لگی۔ کچھ دیربعد شعبان نے اپنا سوال دہرایا تو لڑکی نے دائیں بائیں سر ہلایا۔

ہم انصاف کرنے آئے ہیں لڑکی۔۔۔ شعبان نے کہا۔۔۔ جس نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے اسے تمہارے سامنے قتل کیا جائے گا ،اتنی خوفزدہ نہ ہو۔

لڑکی پھر بھی چپ رہی شعبان لڑکی کو وہیں چھوڑ کر چٹانوں سے باہر آیا۔

کیا یہ لڑکی گونگی ہے۔۔۔ اس نے بلند آواز سے پوچھا۔

علافی آگے بڑھا اور شعبان کے قریب چلا گیا۔

شعبان!،،،،،، علافی نے کہا ۔۔۔تم نے اس کے ساتھ عربی میں بات کی ہوگی یہ لڑکی عربی نہیں سمجھتی یہ ہندو تھی کوئی ایک سال پہلے اس نے ہمارے ایک آدمی کے ساتھ شادی کرنے کی خاطر اسلام قبول کیا تھا۔

اور اس کے ساتھ جو دوسری لڑکیاں تھی؟،،،،، شعبان نے پوچھا ۔۔۔کیا وہ تمہارے قبیلے کی ہیں؟

نہیں !،،،،،،علافی نے جواب دیا ۔۔۔وہ بھی یہی کی رہنے والی ہیں پہلے ہندو تھیں اور یہی کوئی سال بھر پہلے انہوں نے بھی اسلام قبول کیا تھا اور ان کی شادی ہمارے آدمیوں کے ساتھ ہوئی تھی ۔

شعبان ثقفی نے ایک آدمی کو ساتھ لیا جو سندھ اور مکران کی زبان بول سکتا تھا اور اسے لڑکی کے پاس لے گیا شعبان نے اس آدمی کی معرفت لڑکی سے کہا کہ وہ جگہ دکھائے جہاں تینوں لڑکیوں پرحملہ ہوا تھا۔

لڑکی نے چند قدم پر لے جا کر بتایا کہ یہ جگہ تھی ۔

شعبان نے اسے کہا کہ وہ پورا واقعہ سنائے لڑکی نے بولنا شروع کردیا اور ترجمان اس کا بیان عربی میں سناتا گیا ،بیان سن کر شعبان نے لڑکی سے کہا کہ وہ جگہ دکھائی جہاں سپاہیوں نے اسے گرایا تھا لڑکی نے ایک جگہ دکھا دی۔

شعبان نے اس لڑکی کو ایک چٹان کی اوٹ میں بھیج دیا اور دوسری لڑکی کو بلایا اور ساتھ یہ کہا کہ اس کا خاوند بھی آئے۔

عربوں کی ذہانت اور سراغرسانی شروع سے ہی مشہور ہے ان کے خیالی قصوں اور کہانیوں میں بھی عربوں کی دانشمندی صاف جھلکتی نظر آتی ہے، عربوں کے رہن سہن رسم و رواج اور ثقافت کے متعلق یورپی مصنفوں نے کتابیں لکھی ہیں، ہر مصنف نے خواہ وہ عربوں کے خلاف متعصب ہی کیوں نہ تھا عربوں کی عقل و دانش کو بہت سراہا ہے، اس کے متعلق تو کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ عرب کے لوگ صحرا کے بھیدی تھے آج بھی بدوؤں میں یہ ذہانت اور سراغرسانی کی غیرمعمولی اہلیت موجود ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ علم فلکیات کو جو راز مسلمانوں نے دیے تھے وہ کوئی اور قوم نہیں دے سکی، یہ کہنا غلط نہیں کہ عربوں نے خلع کی سراغرسانی بھی کر لی تھی۔ شعبان ثقفی تو جیسے پیدائشی سراغ رساں تھا۔

دوسری لڑکی کو شعبان اس کے خاوند اور ترجمان کے ساتھ چشمے کے دوسری طرف لے گیا اور اس سے پوچھا کہ ان پر سپاہیوں نے کس جگہ حملہ کیا تھا، لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ جگہ تھی شعبان کے کہنے پر اس لڑکی نے بھی پورا واقعہ بیان کیا۔

اس لڑکی کو دور کھڑا کر دیا گیا اور شعبان نے تیسری لڑکی کو اس کے خاوند کے ساتھ بلایا، شعبان اسے ایک اور جگہ لے گیا اور اسے کہا کہ وہ جگہ بتائے جہاں ان پر سپاہیوں نے حملہ کیا تھا ،اس لڑکی نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا شعبان کے کہنے پر اس نے بھی واقعہ بیان کیا اس لڑکی کو ایک اور طرف کھڑا کرکے شعبان نے پہلی لڑکی کو بلایا اور اس کے خاوند کو بھی بلا لیا گیا ،اس کا خاوند اس قدر مشتعل تھا کہ غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوا جا رہا تھا شعبان پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتا تھا لیکن شعبان تحمل اور خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔

شعبان کے پوچھنے پر لڑکی نے بتایا کہ وہ ان چاروں سپاہیوں کو پہچان سکتی ہے۔

چوکی کے سپاہیوں کو جن کی تعداد بارہ تھی کھڑا کیا گیا، شعبان اس لڑکی کو اس کے خاوند کے ساتھ سپاہیوں کے سامنے لے گیا اور لڑکی سے کہا کہ سپاہیوں کو پہچانے ، لڑکی نے بڑی تیزی سے چار سپاہیوں کی طرف اشارہ کر دیا ،ان سپاہیوں کو دوسروں سے دور کھڑا کردیا گیا اور اس لڑکی کو بھیج دیا گیا۔

دوسری لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ شعبان کے بلاوے پر آئی اس نے کہا کہ وہ ایک سپاہی کو تو بہت اچھی طرح پہچانتی ہے، اسے سپاہیوں کے سامنے لے گئے تو اس نے درمیان میں سے ایک سپاہی کے سینے پر ہاتھ رکھا ، اس سپاہی کو الگ کردیا گیا۔

تیسری لڑکی آئی تو اس نے کہا کہ وہ بھی ایک سپاہی کو پہچانتی ہے اس نے زیادہ غور سے دیکھے بغیر ایک سپاہی کی طرف اشارہ کیا، شعبان نے علافی کو اور تینوں لڑکیوں کے خاوندوں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں کہا کہ یہ جو چارسپاہی تمہارے سامنے کھڑے ہیں یہ کل اس وقت گشت پر تھے اور لڑکیوں نے جنہیں ملزم ٹھہرا کر الگ کیا ہے وہ اپنے خیموں میں تھے۔

شعبان نے تینوں لڑکیوں کو بھی بلایا اور انہیں ان کے خاوند کے پاس کھڑا کردیا ۔

میرے دوستوں !،،،،،،شعبان ثقفی نے ان سب سے کہا ۔۔۔ان تینوں لڑکیوں نے وہ جگہ مختلف بتائی ہیں جہاں ان پر حملہ ہوا تھا تم بھی صحراؤں میں پیدا ہوئے ہو اور تم جانتے ہو کہ صحرا کی ریت بھی بولا کرتی ہے، سپاہی گھوڑوں پر سوار تھے اس علاقے میں اور ان جگہوں پر جہاں یہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ ان پر حملہ ہوا چار گھوڑوں کے سموں کے نشان دکھا دو، یہ کل شام کا واقعہ ہے اس کے بعد اندھی نہیں چلی بارش نہیں ہوئی کوئی نشان مجھے دکھا دو، اس لڑکی نے وہ جگہ مجھے دکھائی ہے جہاں اسے گرایا گیا تھا میرے ساتھ آؤ اور وہ جگہ دیکھو۔

شعبان انہیں اس جگہ لے گیا وہاں ایسا کوئی نشان اور کوئی کُھر نہیں تھا۔

میرے ہم وطنوں !،،،،،شعبان نے کہا ۔۔۔ان تینوں لڑکیوں نے مختلف جگہ بتائی ہے جہاں ان پر حملہ ہوا یہ بھی سوچو کہ سپاہی گھوڑے پر سوار تھے کیا وجہ تھی کہ انہوں نے بھاگنے والی دو لڑکیوں کا پیچھا نہ کیا ،کیا یہ لڑکیاں گھوڑوں کی رفتار سے تیز دوڑنے والی تھیں، اردگرد کوئی آبادی نہیں کہ یہ ڈر گئے ہونگے، یہ بھی سوچو کہ ان تین لڑکیوں نے مختلف آدمیوں کو شناخت کیا اور جو اس وقت گشت پر تھے وہ یہ تمہارے سامنے کھڑے ہیں، شعبان نے انھیں ان لڑکیوں کی موجودگی میں ان کے بیان سنائے اور کہا کہ ان سے پوچھو کہ انہوں نے یہی بیان دیئے ہیں یا نہیں۔

میرے بھائی حارث علافی!،،،،، شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔بنو ثقیف کے خون میں ابھی تک کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اگر بنو اسامہ خاندانی اور خونی دشمنی کو بھول کر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو بنی ثقیف کا سالار اپنی جان دے کر دوستی کا حق ادا کرے گا ،کیا تم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ لڑکیاں کچھ مہینے پہلے تک ہندو تھیں، یہ ہندو گھروں میں پیدا ہوئیں بتوں کو پوجتے جوان ہوئیں، پھر انہیں یہ تین عرب اچھے لگے تو یہ مسلمان ہو گئیں، اپنا مذہب اور اپنی ذہنیت ان کے خون میں شامل ہے، اگر یہ میری لڑکیاں ہوتی تو میں ان سے کسی اور طریقے سے پوچھتا کہ بتاؤ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، یہ ایک ڈھونگ رچایا گیا ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان نفاق پیدا کرنے کے لئے ،علافی ایسے اوجھے تو نہیں ہوا کرتے تھے، لیکن سندھ اور مکران کی ریت عرب کے مقدس ریگزاروں پر غالب آ گئی ہے، تم اپنے وطن میں تھے تو باغی کہلائے خدا کی قسم تمہاری بغاوت جائز تھی ،کہاں گئی تمھاری وہ دانشمندی اور تمہاری وہ جرات،،،،،،اب یہ تمہاری لڑکیاں ہیں۔ اگر تم ان کے خاوند مجھے اجازت دو تو میں ابھی دروغ اور صداقت کو الگ الگ کر دوں گا۔

اچانک اس لڑکی کا خاوند جس کے متعلّق کہا گیا تھا کہ سپاہیوں کے تشدد کا نشانہ بنی ہے لڑکی پر جھپٹ پڑا اس کے بالوں کو دونوں ہاتھوں میں اس طرح پکڑا جس طرح چیتا یا شیر اپنے شکار میں پنجے گاڑھا کرتا ہے، اس نے لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر گھمایا اور زمین پر پٹخ دیا وہ پیٹھ کے بل گری تو اس کے خاوند نے تلوار نکالی پاؤں اس کے سینے پر رکھ کر تلوار کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی، سچ بتا ہندو کی بچی اس نے دانت پیس کر کہا۔

عین اس وقت علافی نے اپنی تلوار نکالی اور دوسری دو لڑکیوں کے سامنے کھڑا ہو گیا سچ بولو گی تو زندہ رہوں گی اس نے دونوں لڑکیوں سے کہا ،پھر وہ دوسروں سے مخاطب ہوکر بولا تینوں کے بالوں کو رسیوں سے باندھوں اور رسیاں گھوڑوں کے پیچھے باندھ دو۔

نہیں!،،،،، ایک لڑکی کی سخت خوفزدہ آواز سنائی دی۔۔۔ میں ایسی موت نہیں مرنا چاہتی، سچ سننا ہے تو مجھ سے سنو۔

ادھر وہ لڑکی جس کی شہ رگ پر اس کے خاوند نے تلوار کی نوک رکھی ہوئی تھی بول پڑی وہ بھی سچی بات بتانے پر آگئی تھی۔ تینوں لڑکیوں نے جو حقیقت بیان کی وہ اس طرح تھی کہ ان تینوں کو راجہ داہر کی سگی بہن مائیں رانی نے جو اس کی بیوی بھی تھی تیار کیا تھا کہ وہ ان عربوں کے ساتھ شادی کر لیں اور ان پر چھا جائیں، یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب حجاج کا بھیجا ہوا دوسرا سالار بدیل بن طیفہ مارا گیا تھا اور راجہ داہر فکر میں پڑ گیا تھا کہ اب عرب سے زیادہ طاقتور فوج آئے گی، یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ داہر نے حارث کو رضامند کرنے کی کوشش کی تھی کہ عربوں نے حملہ کیا تو تمام باغی عرب ان کے خلاف لڑیں، لیکن علافی رضامند نہیں ہوا تھا۔

جب محمد بن قاسم کی فوج مکران میں پہنچ گئی اور داہر کو اس کی اطلاع ملی تھی تو اس کے وزیر بدہیمن نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ زمین دوز طریقے سے مسلمانوں کی فوج کو کمزور کردے گا اور اس خطرے کو بھی ختم کر دے گا کہ مکران میں آباد عرب حجاج بن یوسف کی فوج کا ساتھ دیں گے، بدہیمن کو معلوم تھا کہ مائیں رانی پہلے ہی یہ ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔

ان تینوں لڑکیوں نے بتایا کہ وہ مائیں رانی کی بھیجی ہوئی عورتوں سے ملتی رہتی تھیں، اور یہ تینوں جب سیر سپاٹے کے بہانے کہیں باہر جاتی تھیں تو وہ دراصل مائیں کی بھیجی ہوئی کسی عورت سے ملنے جایا کرتی تھیں، انہیں مائیں رانی کی آخری ہدایت یہ ملی تھی کہ علافی نے عرب کی حملہ آور فوج کے ساتھ دوستی کر لی ہے لہذا ان کے درمیان دشمنی پیدا کرنی ہے، مائیں رانی نے دشمنی پیدا کرنے کا یہ طریقہ بتایا تھا ۔

ان کی قسمت کا فیصلہ ہمارا سردار حارث علافی کرے گا۔۔۔ ایک لڑکی کے خاوند نے کہا۔

تینوں کو قتل کر دو۔۔۔ علافی نے کہا۔

تینوں لڑکیاں چیخنے چلانے لگیں وہ رحم کی بھیک مانگ رہی تھیں اور وہ کہتی تھیں کہ یہ کام انہوں نے خود نہیں کیا ان سے کروایا گیا ہے۔

لیکن علافی نے ایک بار پھر کہا کہ ان کی جان بخشی نہیں کی جائے گی۔

رک جا حارث علافی!،،،،، محمد بن قاسم کی آواز سنائی دی، وہ ایک طرف کھڑا خاموشی سے اپنے سراغ رساں سالار شعبان ثقفی کی کاروائی دیکھ رہا تھا اس نے کہا۔۔۔ انہیں بےگناہ سمجھو، میں داہر کو ایک پیغام بھیجنا چاہتا ہوں، اس نے تینوں لڑکیوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا میرے سپاہی تمہیں گھوڑوں پر بیٹھا کر کسی بستی میں چھوڑ آئیں گے، راجہ داہر سے کہنا کی لڑائی میدان میں لڑی جاتی ہے اور لڑائی مرد لڑا کرتی ہیں عورتوں کو نہ لڑاؤ ،اور اسے یہ کہنا کہ اپنی سگی بہن کو بیوی بنانے والے کو آخر سزا ملنی ہی ہے، اپنے بھیانک انجام کے لئے تیار ہو جاؤ۔

محمد بن قاسم نے چوکی کے کماندار سے کہا کہ وہ ان لڑکیوں کو الگ الگ گھوڑوں پر بٹھائے اوردو سوار ساتھ بھیجے اور یہاں جو قریبی بستی ہے انہیں وہاں کسی سرکردہ آدمی کے حوالے کر آئے۔

اس طرح ایک بڑی خطرناک صورتحال پیدا ہوتے ہوتے رہے گی ورنہ ہندو ذہن نے مسلمانوں میں دشمنی پیدا کرنے کی بڑی پرکشش اور خوفناک کوشش کی تھی ،اس دور میں ہندوستان ایک پراسرار زمین تھی، ہندوستان کے شعبدہ باز مشہور تھے ،یہاں کے مندروں کے اندر ایک اور دنیا آباد تھی جو حسین بھی تھی اور بھیانک بھی، عربوں کا مذہب اور کلچر ہندومت کے بالکل الٹ تھا، جب یہ دو متضاد کلچر ہم متصادم ہوئے تو بڑی ہی سنسنی خیز کہانیوں نے جنم لیا۔

محمد بن قاسم کو ابھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس کا دشمن اس کے خلاف کیسے کیسے ہتھیار استعمال کرکے اسے شکست دینے کی کوشش کرے گا ،محمد بن قاسم ارمن بیلہ پہنچا اور اس نے اگلی صبح دیبل کی طرف کوچ کا حکم دے دیا ۔

کیا وہ بدھ ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ راجہ داہر نے غصے اور بےتابی سے پوچھا۔

آرہا ہوگا مہاراج !،،،،،اسے جواب ملا۔

نیرون اتنی دور تو نہیں کہ وہ تین دنوں میں یہاں تک نہ پہنچ سکے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ عرب والوں کی اطاعت کو قبول کر کے وہ بھول گیا ہے کہ اسے ہم نے حاکم مقرر کیا ہے ،ہم اسے حاکم سے بھکاری بھی بنا سکتے ہیں۔

داہر کو تفصیلی رپورٹ مل چکی تھی کہ عرب سے کتنی زیادہ فوج آئی اور کس قدر زیادہ سازوسامان ساتھ لائی ہے، اب اسے یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ قنزپور اور ارمن بیلہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا ہے ،اور گزشتہ رات اسے مائیں رانی نے بتایا تھا کہ اس نے جو تین ہندو لڑکیاں باغی عربوں کی بستی میں بھیجی تھی وہ واپس آگئی ہیں اور یہ وار بیکار ہو گیا ہے۔

ان لڑکیوں کو محمد بن قاسم نے زندہ رہنے دیا اور انہیں ایک قریبی بستی میں بھیج دیا تھا ،ان لڑکیوں نے بستی والوں سے کہا تھا کہ ان کا تعلق راج دربار سے ہے اور انہیں فوراً اروڑ پہنچایا جائے، انہیں تیز رفتار اونٹوں پر اروڑ روانہ کردیا گیا تھا ،چار آدمی اس کے ساتھ بھیجے گئے تھے وہ گزشتہ شام اروڑ پہنچی اور مائیں رانی کو بتایا تھا کہ ان پر کیا بیتی ہے، مائیں رانی رات کو ہی ان لڑکیوں کو راجہ داہر کے پاس لے گئی تھی اور داہر نے ان سے سارا واقعہ سنا تھا۔

مہاراج!،،،،،، ایک لڑکی نے کہا۔۔۔ ہم بے قصور ہیں، ہم نے اپنا کام کر دیا تھا لیکن ہمیں معلوم نہ تھا کہ عرب کے لوگوں کی نظریں زمین کے نیچے بھی دیکھ سکتی ہیں ، ہم سمجھتی تھیں کہ مکران کے عرب جس طرح عربی فوج کے خلاف بھڑک اٹھے ہیں وہ اس چوکی کے عرب فوجیوں پر حملہ کر دیں گے پھر ان میں اور عربی فوج میں ایسی دشمنی پیدا ہوجائے گی کہ علافی اپنے تمام قبیلے کے ساتھ مہاراج کا دایاں بازو بن جائے گا ،لیکن عربی فوج کا سالار آگیا اس کے ساتھ بہت سے آدمی تھے۔

آگے جو کچھ ہوا وہ میں سن چکا ہوں ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ کیا تجھے یقین ہے کہ تو نے عربوں کے سالار کو دیکھا ہے؟

یہ تو ہم تینوں نے پہلے ہی پتہ چلا لیا تھا کہ عرب سے جو فوج آئی ہے اس کے سپہ سالار کا نام ہے ۔۔۔لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ ہمارے خاوندوں نے ہمیں بتایا تھا کہ اس کا نام محمد بن قاسم ہے۔

محمد بن قاسم !،،،،،داہر نے زیر لب کہا ۔۔۔اور لڑکی سے پوچھا کیا تم تینوں نے نام غلط تو نہیں سنا؟،،،،،، نام حجاج بن یوسف تو نہیں؟

نہیں مہاراج !،،،،،ایک لڑکی نے کہا۔

اس میں کوئی شک نہیں مہاراج !،،،،،دوسری لڑکی نے کہا۔۔۔ نام محمد بن قاسم ہے، حجاج بن یوسف نہیں۔

مہاراج !،،،،،پہلی لڑکی نے کہا ۔۔۔وہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا ہے ہم تینوں سے چھوٹا ہے وہ تو کمسن لڑکا ہے۔

مہاراج !،،،،دوسری لڑکی نے کہا ۔۔۔اور بہت ہی خوبصورت لڑکا ہے، اسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ وہ سالار ہے، لیکن اس کے ساتھ جو کوئی بات کرتا سالار محترم کہہ کر بات کرتا تھا ،اس نے ہمیں اپنے خاوندوں اور حارث علافی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا اور حکم دیا کہ انہیں قریبی بستی میں چھوڑ آؤ ،اس سے کوئی شک نہ رہا کہ یہی سالار ہے ۔

راجہ داہر نے قہقہہ لگایا۔

سنا تھا حجاج بن یوسف دانشمند ہے۔۔۔ داہر نے کہا۔۔۔ لیکن احمق نکلا، تجربے کار سالاروں کو ہمارے ہاتھوں مروا کر اس نے ایک بچے کو بھیج دیا ہے، وہ اس بچے کو کسی وجہ سے مروانا چاہتا ہے یا اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ تجربے کار سالاروں سے ہمیں شکست دے گا اور فتح کا سہرا اپنے کمسن بھتیجے کے سر بندھے گا۔۔۔۔اس نے لڑکیوں سے پوچھا ۔۔۔رانی نے بتایا ہے کہ اس کمسن سپہ سالار نے میرے لیے کوئی پیغام دیا ہے؟

تینوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جیسے وہ مہاراج کے سامنے محمد بن قاسم کا پیغام زبان پر لانے سے ڈر رہی ہو ،پھر انہوں نے مائیں رانی کی طرف دیکھا ۔

مہاراج کو بتاؤ اس عربی سالار نے کیا پیغام دیا تھا ۔۔۔مائیں رانی نے کہا ۔

اس نے کہا ہے۔۔۔ ایک لڑکی روک روک کر بولی۔۔۔ راجہ داہر سے کہنا کہ لڑائی میدان میں لڑی جاتی ہے اور لڑائی مرد لڑا کرتی ہیں عورتوں کو نہ لڑاؤ،،،،،،،،، اور اپنے راجہ سے کہنا کے اپنی سگی بہن کو بیوی بنانے والے کو آخر سزا ملنی ہی ہے، اپنے بھیانک انجام کے لئے تیار ہو جاؤ۔

وہ کم عمر ہی نہیں ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔وہ اوچھا بھی ہے۔

لڑکیوں کو باہر بھیج کر داہر نے مائیں رانی سے پوچھا کہ ان لڑکیوں کا اب کیا بنے گا؟

یہ اب کسی ہندو کے قابل نہیں رہیں۔۔۔۔مائیں رانی نے کہا یہ مسلمانوں کی بیویاں رہ چکی ہیں۔

انہیں مندر کی داسیاں بھی نہیں بنایا جاسکتا، میں نے ان کے برتن الگ کر دیئے ہیں، انہیں اپنے پاس رکھوں گی، انہیں میں نے بھیجا تھا میں ان کے ساتھ بے وفائی نہیں کروں گی۔

یہ نہ بھولنا کے یہ ناپاک لڑکیاں ہمارے راج کے لئے منحوس ثابت ہوںگی۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔انہیں زیادہ دن اپنے پاس نہ رکھنا۔

جاری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں