محمدبن قاسم…قسط نمبر/8

مرتب: محمدساجداشرفی

حجاج کا قاصد جب محمد بن قاسم کے پاس شیراز پہنچا تو محمد بن قاسم نے بڑی تیزی سے پیغام قاصد کے ہاتھ سے لیا اور پڑھا اس کے چہرے کے تاثرات میں نمایاں تبدیلی آئی اس نے جھٹکے سے پیغام ایک طرف رکھ دیا جیسے پھینک دیا ہو۔
میرا چچا اتنا بوڑھا تو نہیں ہوا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ پھر اس کا دماغ سوچنے سے معذور کیوں ہو گیا ہے؟،،،، کیا سندھ پر حملے کے لئے کوئی اور سالار نہیں تھا؟،،،، کیا وہ بھول گیا ہے کہ میں سرکش قبائل کی سرکوبی کے لئے جا رہا ہوں؟،،،، میں نہ گیا تو کیا ان کی شرکشی بڑھ نہ جائے گی ؟،،،،کیا ابھی تک سندھ کے راجہ سے اپنے قیدی نہیں چھڑائے جا سکے؟
امیر شیراز!،،،،، قاصد نے کہا ۔۔۔آپ پر اللہ کی رحمت ہو ،دو سالار سندھ کی سرزمین پر اپنی جانیں دے چکے ہیں۔
سالار محمد بن قاسم نے چونک کر پوچھا ۔۔۔جلدی بتاؤ وہ کون تھے؟
پہلا سالار عبداللہ بن نبہان گئے اور شہید ہو گئے۔۔۔ قاصد نے کہا۔۔۔ اور ہمارے لشکر نے شکست کھائی پھر بدیل بن طہفہ گئے اور وہ بھی شہید ہوگئے اور ان کی شہادت ہماری شکست کا باعث بنی ،سالار عامر بن عبداللہ نے آپ کے چچا ابن یوسف امیر بصرہ کو کہا تھا کہ اب انھیں سندھ پر حملے کا موقع دیا جائے، لیکن امیر بصرہ نے کہا کہ سندھ کا فاتح میرے مرحوم بھائی کا بیٹا ہی ہو گا۔
محمد بن قاسم کے چہرے پر جو تبدیلی آئی تھی وہ کچھ اور ہی قسم کی تھی وہ اٹھ کر کمرے میں آہستہ آہستہ ٹہلنے لگا اس نے اپنے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ رکھے تھے اور اس کا سر جھکا ہوا تھا، قاصد کی نظریں اس پر لگی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔
ابن نبہان اور ابن طہفہ شکست کھانے والے سالار تو نہیں تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے رک کر قاصد سے پوچھا۔
خدا کی قسم وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں آگے بڑھنے والوں میں سے تھے ۔۔۔قاصد نے کہا۔۔۔ دونوں دشمن کے قلب میں چلے گئے،
قاصد کو سندھ پر دونوں حملے کی جو تفصیلات معلوم تھیں وہ اس نے محمد بن قاسم کو سنائی اور اسے بتایا کہ حجاج بن یوسف کی جذباتی حالت کیا ہو رہی ہے۔
اس کی حالت ایسی ہی ہونی چاہیے۔۔۔ محمد بن قاسم نے قاصد سے کہا۔۔۔ ہم پر سونا اور کھانا حرام ہو جانا چاہیے، ہم پر اپنی بیویاں حرام ہو جانی چاہیے، کچھ دیر آرام کر لے اور واپس چلا جا میرے چچا سے کہنا کہ تیرے بھائی کا بیٹا تیرا عہد پورا کرے گا، اپنے قیدیوں کو میں ہی آزاد کراؤنگا، اور اگر اللہ مجھ پر راضی رہا تو سندھ کے سب سے اونچے مندر پر اسلام کا پرچم لہراؤنگا۔
قاصد کے جانے کے فوراً بعد محمد بن قاسم نے اپنے مشیروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ حجاج بن یوسف کا کیا حکم آیا ہے۔
امیر محترم!،،،،، ایک سالار نے کہا ۔۔۔حجاج کا یہ کہنا کہ رے پر فوج کشی روک دی جائے، کوئی اچھا فیصلہ نہیں، سندھ پر حملے کے لئے صرف آپ جا رہے ہیں آپ یہاں سے اپنے محافظ دستے کے سوا کوئی نفری نہیں لے جا رہے، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی غیر حاضری میں ہم رے کی مہم جاری رکھیں۔
اگر ہم نے یہ مہم روک دی تو قبائل کی سرکشی بغاوت بن جائے گی ۔۔۔دوسرے سالار نے کہا۔۔۔ آپ کے جانے کے بعد ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو نہیں رہ سکتے۔
میں آپ کو اجازت دیتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن یہ سوچ لینا کہ حجاج سندھ میں دو دفعہ شکست کے بعد تیسری شکست کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرے گا، اور وہ بخشے گا بھی نہیں، آپ سب اسے جانتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس کی جذباتی حالت کیا ہو رہی ہوگی۔
اس کے باوجود ہم باغیوں کے خلاف اس جنگی کارروائی کو ملتوی نہیں کریں گے۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔
حجاج کے اوپر اللہ بھی ہے۔۔۔ دوسرے سالار نے کہا ۔۔۔ہمیں حجاج کی نہیں اللہ تعالی کی خوشنودی چاہیے۔
محمد بن قاسم کی اپنی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ ان دونوں سالاروں کی بات دھیان سے سن ہی نہ رہا ہو، اس نے مکران اور سندھ کا نقشہ سامنے رکھ کر سالاروں کے ساتھ صلح مشورہ شروع کردیا۔

حجاج بن یوسف کی جذباتی کیفیت کا اندازہ کوئی کم ہی کر سکتا تھا اس پر تو دیوانگی کی کیفیت طاری تھی، وہ حجاج بن یوسف جو کسی کی غلط بات یا حرکت پر برہم ہوتا تو اس کی گردن اڑا دیتا تھا، اور کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے اپنی ہی قوم کے آدمیوں کو قتل کرنا اس کا شغل ہو، تاریخیوں سے یہی سامنے آتا ہے کہ حجاج ذرا سی بھی غلطی برداشت نہیں کرتا تھا اور انتہائی سخت سزا دیتا تھا ،اس کی تلوار نے دشمن کا اتنا خون نہیں بہایا تھا جتنا اس نے اپنی قوم کا بہا دیا تھا ،وہ حجاج کس طرح برداشت کرسکتا تھا کہ ایک ہندو راجہ بے گناہ اور نہتے مسلمان بحری مسافروں کو لوٹ بھی لے اور قید میں بھی ڈال دے، اس صورتحال میں پتہ چلا کہ حجاج غلطی کرنے والوں کے لئے ہی ظالم نہیں تھا بلکہ دشمن کے لئے وہ آسمانی بجلی تھا۔
بصرہ کی راتیں بھی جیسے بیدار اور سرگرم رہنے لگی تھیں، حجاج بھاگ دوڑ کے ساتھ ساتھ جو احکام دیتا تھا اس کی فوری تعمیل چاہتا تھا۔ شامی دستوں میں سے اس نے چھ ہزار پیادہ اور سوار خود جاکر منتخب کئے اور انہیں بصرہ میں جمع کر لیا ،یہ دستے دن رات تیغ زنی کی گھوڑ سواری اور تیر اندازی کی مشق کرتے تھے، سپاہی تھک کر چور ہو جاتے تھے لیکن حجاج کا حکم تھا کے تھکن سے کوئی گر پڑتا ہے تو اسے درّے مار کر اٹھاؤ،
اس ٹریننگ کی نگرانی وہ خود بھی کرتا تھا اور جب دیکھتا تھا کہ سپاہیوں کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں تو انہیں اکٹھا کرکے کہتا تھا کہ اسلام اور عرب کی آبرو کے محافظ تم ہو، اور یہ سوچ لو کہ سندھ میں ایک ہندو راجہ نے جن عورتوں اور بچوں کو قید میں ڈال رکھا ہے وہ تمہاری مائیں ہیں، تمہاری بہنیں ہیں، تمہاری بیٹیاں ہیں۔
اور میں آج تیسری بار کہہ رہا ہوں۔۔۔ ایک روز حجاج نے اپنے دستوں سے کہا۔۔۔ کہ عرب کی ایک عورت نے جو اسلام کی بیٹی ہے مجھے پکارا ہے اور میں نے اس کی پکار کا جواب دیا ہے ،کیا میں اکیلا ان قیدیوں کو رہا کرا سکتا ہوں؟،،،، کیا تمہاری غیرت گوارا کرے گی کہ میں تمہاری ماؤں بیٹیوں کو بھول جاؤ ؟،،،،نہیں میں انہیں نہیں بھولوں گا میں اکیلا جاؤں گا.
ہم جائینگے۔۔۔ دستوں کی صفوں میں ایک دھماکا ہوا۔۔۔ ہم جائیں گے۔۔۔ یہ ایک گرج تھی۔ حجاج ان دستوں کو ایسے ہی جذباتی اور پرجوش طریقے سے خطاب کرتا تھا، اس کا اثر ایسا ہوتا تھا کہ دن بھر کی جنگی مشقوں کے تھکے ہوئے سپاہیوں کے چہروں پر تازگی آجاتی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ بصرہ کے گھوڑ دوڑ کے میدان میں حجاج نے تیغ زنی اور کشتی وغیرہ کے مقابلوں کا اہتمام کر دیا تھا، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے عراق اور شام کی ساری آبادی اور تمام گھوڑے اور اونٹ بصرہ میں آگئے ہوں، حجاج نے دور دور تک منادی کرا دی تھی اور یہ اعلان کیا تھا کہ بصرہ میں گھوڑ دوڑ، نیزہ بازی، ہتھیاروں کی لڑائی، بغیر ہتھیاروں کی لڑائی اور کشتی وغیرہ کے مقابلے ہوں گے اور جو آدمی یہ مقابلے جیتے گے یا ان مقابلوں میں اچھے جنگجو ثابت ہونگے انہیں فوج میں بھرتی کیا جائے گا، عہدے بھی دیے جائیں گے اور انہیں باہر لڑائی پر بھیجا جائے گا جہاں وہ بے انداز مال غنیمت کے حق دار ہو گے۔
اس دور میں قومی جذبہ تو اپنی جگہ تھا ہی مال غنیمت کی کشش بھی موجود تھی، یہ فوجی قسم کا میلہ کئی دنوں سے چل رہا تھا اور روز بروز اس کی رونق بڑھتی جا رہی تھی۔ جو لوگ دور تھے وہ کچھ دنوں بعد پہنچے تھے اور ابھی تک چلے آ رہے تھے، حجاج نے یہ اہتمام بھی کیا تھا کہ بصرہ کے بہت سے آدمی مقابلوں میں شامل ہونے والوں کو اور تماشائیوں کو بتاتے رہتے تھے کہ سندھ کے ایک راجہ نے عرب کے بہت سے آدمیوں عورتوں اور بچوں کو قید میں ڈال دیا ہے اور ان کا بحری جہاز لوٹ لیا ہے، حجاج کے یہ آدمی لوگوں کو بھڑکاتے رہتے تھے اس طریقے سے لوگوں کے دلوں میں وہ جذبہ بیدار ہو گیا جو حجاج بیدار کرنا چاہتا تھا۔
دو تین مرتبہ اس نے خود مقابلے میں شریک ہونے والوں اور تماشائیوں سے خطاب کیا تھا، اور اس نے وہی الفاظ کہے تھے جو اس نے سالار بدیل بن طہفہ کی شہادت کی اطلاع کے بعد بصرہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے خطبے میں کہے تھے۔
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان ہر سال دمشق میں جنگی کھیلوں کے مقابلے کر آیا کرتا تھا اور یہ ایک ایسا میلہ ہوتا تھا جس میں دور دور سے لوگ مقابلوں میں شریک ہونے کے لئے اور دیکھنے کے لیے آتے تھے، حجاج بصرہ میں جب اسی قسم کے مقابلے کروا رہا تھا تو یہ وہی دن تھا جب دمشق میں خلیفہ نے مقابلے کروانے تھے، ہر سال انہی دنوں دور دراز کے علاقوں کے لوگ دمشق روانہ ہو جایا کرتے تھے اور دمشق کی چہل پہل میں اضافہ ہونے لگتا تھا ،لیکن اب دمشق کے جو باشندے تھے وہ بھی وہاں سے غائب ہو گئے تھے۔
مقابلوں کا پانچواں یا چھٹا دن تھا مقابلوں والے میدان کے ارد گرد تماشائیوں کا ایسا ہجوم تھا جیسے یہ انسانی سروں کا سمندر ہو ۔
چار چار گھوڑ سوار ایک دوسرے کو گھوڑے سے گرانے کی کوشش کر رہے تھے یہ بغیر ہتھیار کے لڑائی تھی جس میں اپنے حریف کو گھوڑے سے صرف گرانا ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے گھوڑے کو اپنے قبضے میں بھی لیا جاتا تھا، اس مقابلے میں سوار جان کی بازی تک لگا دیا کرتے تھے۔
چار چار سوار اس مقابلے میں الجھے ہوئے تھے، زمین سے اٹھتی ہوئی گرد آسمان کی طرف جارہی تھی تماشائیوں کا شوروغل زمین و آسمان کو ہلا رہا تھا ،حجاج بن یوسف ان گھوڑوں کے ارد گرد اپنا گھوڑا دوڑا رہا تھا مقابلے میں اس کی موجودگی کچھ اور ہی رنگ پیدا کر رہی تھی، مقابلے میں بے پناہ جوش و خروش پیدا ہوگیا تھا ،حجاج لڑنے والوں کی حوصلہ افزائی بڑی بلند آواز میں کر رہا تھا۔
حجاج کے عقب میں ایک گھوڑا اس طرح آیا جیسے مقابلہ کرنے والے گھوڑوں کی اڑائی ہوئی گرد میں سے نکلا ہو، اس کے سوار نے گھوڑا حجاج کے گھوڑے کے پہلو میں کر لیا۔
حجاج مقابلے میں اس قدر محو تھا کہ اسے محسوس ہی نہ ہوا کہ اس کے پہلو کے ساتھ ایک اور گھوڑا لگا ہوا چلا آ رہا ہے۔
کیا بصرہ کا امیر مجھے گھوڑے سے گرائے گا؟۔۔۔
حجاج کو للکار سنائی دی اس نے اس خیال سے چونک کر ادھر دیکھا کہ کون گھوڑ سوار اسے مقابلے کے لئے للکار رہا ہے، اس نے دیکھا کہ وہ خلیفہ ولید بن عبدالملک تھا۔
خلیفہ کو اپنے ساتھ دیکھ کر حجاج نہ حیران ہوا اور نہ اس نے پریشانی کا اظہار کیا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ خلیفہ دمشق سے آیا ہے، خلافت کا ہیڈکوارٹر دمشق میں تھا۔
حجاج نے اپنے گھوڑے کا رخ بدلا اور خلیفہ کے گھوڑے کو ایک طرف دھکیلتا دباتا ہوا کچھ دور لے گیا پھر وہ دونوں تماشائیوں میں سے نکل گئے اور کچھ دور جا کر رکے۔
معلوم ہوتا ہے ابن یوسف مجھے گھوڑے سے نہیں مسند خلافت سے گرانا چاہتا ہے۔۔۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے کہا۔۔۔ تم نے مجھے اتنا بھی نہ بتایا کہ بصرہ میں تم یہ اہتمام کر رہے ہو ،کیا تم نہیں جانتے تھے کہ انہی دنوں دمشق میں یہی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں؟
خلیفۃ المسلمین!،،،، حجاج نے اپنی مخصوص رعب دار آواز میں کہا۔۔۔ آپ کے مقابلے ایک تفریح ہوتی ہے، اور یہ مقابلے جو میں کروا رہا ہوں یہ ایک ضرورت ہے ،میں سندھ پر حملے کے لئے ایک فوج تیار کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے مخبروں نے آپ کو ساری صورت حال سے آگاہ کردیا ہے، نہ کرتے تو اس وقت آپ بصرہ میں نہ ہوتے۔
اور تم نے مجھے رسمی طور پر بھی اطلاع نہ دی کہ ہماری فوج دوسری بار سندھ سے پسپا ہو چکی ہے ۔۔۔خلیفہ ولید نے کہا۔۔۔ اب تم تیسرے حملے کی تیاری کر رہے ہو، کیا یہ شرمساری ہے جس نے تمہیں مجھ تک آنے سے روکے رکھا ہے؟
خلیفۃ المسلمین!،،،، حجاج نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اگر شرمسار ہوں تو صرف اللہ کے سامنے، آپ اس دنیا میں اس وقت آئے تھے جب میں جوان ہو چکا تھا ،جو میں جانتا ہوں وہ آپ نہیں جانتے اور جو میں کر سکتا ہوں وہ آپ نہیں کرسکتے، آپ کی نظر خلافت کی مسند تک محدود ہے، میری نظر اسلام اور عرب کی آبرو کو دیکھ رہی ہے، میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں آپ یہ جانتے ہیں کہ میں حملے سے پہلے آپ سے باقاعدہ اجازت لوں، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ اجازت نہیں دیں گے ،میں نے آپ سے وعدہ کر رہا ہے کہ سندھ کی لڑائی میں جو خرچ آئے گا میں اس سے دو گنا مال بیت المال میں جمع کراؤنگا۔ اور اب سندھ کی سرزمین آپ کے حضور پیش کروں گا۔
حجاج!
ابن عبدالملک!،،،،، حجاج نے اسے کچھ کہنے نہ دیا اور بولا اگر میں نے اپنے قیدیوں کو رہا نہ کروایا تو کل ہمارا یہی دشمن یہاں آکر ہماری بیٹیوں کو اٹھا کر لے جائے گا، اور اگر ہم نے یہ دو شکست ہضم کر لی تو پھر آپ خلافت کی مسند پر نہیں دشمن کے قید خانے میں بیٹھے ہوئے ہونگے۔
خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب حجاج بن یوسف کے تیور دیکھے اور اس کی باتیں سنی تو اس کی زبان بند ہو گئی، دراصل خلافت اسلامیہ اس دور میں داخل ہو چکی تھی جب قومی غیرت سمٹ سکڑ کر ایوان خلافت تک محدود رہ گی تھی، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خلیفہ سندھ پر حملے کے حق میں نہیں تھا، آرام اور اطمینان سے حکومت کرنا چاہتا تھا ،یہ تفصیل سے بتایا جاچکا ہے کہ حجاج بن یوسف بڑا سخت گیر آدمی تھا اس کا نام سن کر اچھے اچھے جابر مسلمانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا ،لیکن دشمن پر تو عذاب الہی بن کر نازل ہوتا تھا۔

شامی فوج میں سے جو دستے حجاج نے سندھ پر حملے کے لیے منتخب کیے تھے ان کی نفری چھ ہزار تھی ،جن میں اکثریت گھوڑ سواروں کی تھی یہ سب جوان آدمی تھے ایک بھی ادھیڑ عمر سپاہی نہیں لیا گیا تھا ،اس کے علاوہ جو فوج حجاج نے جنگی کھیلوں کے مقابلے میں سے تیار کی تھی اس کی نفری کسی تاریخ میں نہیں ملتی غالباً وہ بھی چھ یا سات ہزار تھی یہ رضاکار فوج تھی۔
حجاج نے اس فوج کی ہر ایک ضرورت اس طرح پوری کی جیسے یہ سپاہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے افراد تھے، مثلا سوئی دھاگا تک ہر ایک سپاہی کو دیا گیا تھا ،فوج کی خوراک کا انتظام یہاں تک کیا گیا کہ عرب کے لوگ کھانے کے ساتھ سرکہ زیادہ استعمال کرتے تھے بلکہ اس کو اپنی مرغوب غذا سمجھتے تھے، اتنا زیادہ سرکہ فوج کے ساتھ نہیں بھیجا جاسکتا تھا ،حجاج نے یہ انتظام کیا کہ روئی کے بڑے گٹھے سرکہ میں ڈبو دیے جب روئی نے مکمل طور پر سرکے کو چوس لیا تو یہ گٹھے خشک ہونے کے لیے رکھ دیے گئے اس نے سالاروں اور کمانڈروں کو بتایا کہ ہر کھانے کے ساتھ ضرورت کے لئے روئی نکال کر پانی میں ڈوبئی جائے اور اسے نچوڑ لیا جائے۔
فوجیوں کے ذاتی اخراجات کے لیے حجاج نے تیس ہزار دینار الگ ساتھ دیئے اور حکم دیا کہ سپاہی کی ضرورت فراخدلی سے پوری کی جائے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حجاج نے فوج کی ضروریات کا خیال حد سے زیادہ رکھا تھا ،سرکے والی روئی کے گٹھے اور سامان خوردونوش بحری جہازوں پر لادا گیا، چونکہ فوج میں پیدل دستے بھی تھے اس لیے ان کی سواری کے لئے چھ ہزار تیزرفتار اونٹنیاں ساتھ بھیجی گئی کئی ہزار اونٹ الگ تھے جن پر ضرورت کا سامان لادا گیا تھا۔
بحری جہازوں سے جو سامان بھیجا جا رہا تھا اس میں منجیقیں بھی تھیں ان میں ایک منجیق اتنی بڑی تھی کہ اسے پانچ سو آدمی کھینچتے تھے تو اس سے پتھر دور جاتا تھا، یہ منجیق اتنی وزنی پتھر پھینکتی تھی جسے کئی آدمی دھکیل کر منجیق تک لاتے تھے، اس منجیق سے پھینکا ہوا پتھر قلعے کی دیوار میں شگاف کردیتا تھا، اس کا نام عروس تھا۔
جب یہ فوج بصرہ سے شیراز کو روانہ ہوئی تو بصرہ کے تمام لوگ اور گردونواح کے لوگ بھی راستے کے دونوں طرف اکٹھے ہوگئے تھے، ان میں عورتیں بھی تھیں، نوجوان لڑکیاں اور بچے بھی تھے ،حجاج نے فوج میں اور لوگوں میں جیسے آگ بھر دی تھی، لوگوں کے نعروں اور دعاؤں میں مجاہدین کا لشکر بصرہ سے روانہ ہوا، حجاج بن یوسف بہت دور تک لشکر کے ساتھ گیا آخر ایک بلند جگہ رک گیا لشکر کے آخری سپاہی کے گزر جانے تک حجاج ہاتھ ہوا میں ہلاتا رہا ،لوگ لشکر کو جاتا دیکھتے رہے پھر یہ لشکر اپنی ہی اڑائی ہوئی گرد میں چھپ گیا اور لوگ بہت دیر اس گرد کو آسمان کی طرف جاتا دیکھتے رہے، ان کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں ،بوڑھوں اور بچوں کی دعائیں ان کے ساتھ گئی، اس لشکر کا سالار جہم بن زحر جعفی تھا۔

محمد بن قاسم بڑی بیتابی سے اس لشکر کے انتظار میں تھا ،اس کی بیتابیوں کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات گھوڑے پر سوار ہوتا اور بصرہ سے آنے والے راستے پر دور تک چلا جاتا، ایک روز وہ اپنے کام میں مصروف تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور اس کے کانوں میں وہ آواز پڑی جس کے انتظار میں وہ بے چین اور بے قرار تھا۔
افق سے گرد اٹھ رہی ہے۔۔۔ اطلاع دینے والے نے کہا۔
خدا کی قسم یہ اندھی نہیں گھوڑا تیار کرو۔۔۔ محمد بن قاسم نے حکم دیا ۔۔۔اور دوڑتا ہوا باہر نکلا۔
وہ اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اس نے ایڑ لگا دی ،اس کا محافظ دستہ دستور کے مطابق اس کے پیچھے چلا گیا اس طرح محمد بن قاسم نے بہت دور جا کر لشکر کا استقبال کیا ،اب محمد بن قاسم اس لشکر کا سالار تھا۔ سالار جہم بن زحر جعفی اس لشکر کے ساتھ ہی رہا لیکن اسے محمد بن قاسم کے ماتحت رہنا تھا۔
حجاج نے سندھ تک آپ نے فوج کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ مکران تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں قائم کردی گئیں تھیں جن میں تیز رفتار گھوڑے اور اونٹ تیار رکھے گئے تھے، یہ آنے جانے والے قاصدوں کے لئے تھے تاکہ وہ انتہائی تیز رفتار پر جائیں اور ہر چوکی سے گھوڑا یا اونٹنی تبدیل کریں۔
مورخوں کے اندازے کے مطابق بصرہ سے دیبل تک پیغام ایک ہفتے سے کم دنوں میں پہنچ جاتا تھا، جبکہ عام مسافروں کے لیے یہ مسافت کم از کم ڈیڑھ مہینے کی تھی۔
سالار جہم بن زحر جعفی کی زبانی حجاج نے محمد بن قاسم کو جو ہدایات بھیجی تھی ان میں ایک یہ تھی کہ ابن قاسم حجاج کی ہدایت کے بغیر حملہ نہ کرے، دیبل تک سندھ کے علاقے میں دو تین چھوٹے چھوٹے قلعے تھے انھیں تہ تیغ کرکے محمد بن قاسم کو دیبل تک پہنچنا تھا ،لیکن دیبل سے دور حجاج کی ہدایت کا انتظار کرنا تھا ،جس روز یہ لشکر شیراز پہنچا تو اس سے اگلے ہی دن محمد بن قاسم نے الصبح مکران کی طرف کوچ کر دیا ،مکران کا وہ حصہ جو مسلمانوں کے قبضے میں تھا اس کا امیر محمد بن ھارون تھا اسے پہلے اطلاع دی جاچکی تھی کہ لشکر آ رہا ہے۔ تاریخیوں میں لکھا ہے کہ جب لشکر مکران پہنچا تو امیر محمد بن ھارون اپنے محافظ دستے کے ساتھ راستے میں کھڑا تھا لیکن وہ گھوڑے کے اوپر اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ دونوں ہاتھ زین پر رکھے آگے کو جھکا ہوا تھا۔
محمد بن قاسم کو قدرتی طور پر توقع ہو گئی کہ امیر مکران گھوڑا دوڑاتا اس تک پہنچے گا لیکن اس کا گھوڑا آہستہ آہستہ چلا، محمد بن قاسم کو کچھ شک ہوا اس نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور محمد بن ھارون تک پہنچا جب ہاتھ ملایا تو محمد بن قاسم نے دیکھا کہ محمد بن ہارون کا ہاتھ کانپ رہا ہے اسے بڑا تیز بخار تھا ،اسے باہر نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا لیکن اپنے لشکر کے استقبال کے لئے وہ باہر نکل آیا اس کے بعد محمد بن ھارون صحت یاب نہیں ہو سکا وہ بیماری کی حالت میں ہی محمد بن قاسم کا ساتھ دیتا رہا۔

ادھر محمد بن قاسم اپنی فوج لے کر مکران پہنچا ادھر بحری جہاز اور بڑی بادبانی کشتیاں مکران کے ساحل پر آ لگی، اس قدر سامان تھا جسے اتارنے کے لیے کئی دن درکار تھے۔ متعدد جہازوں سے اس خیال سے سامان نہ اتارا گیا کہ ان جہازوں کو دیبل تک لے جانا تھا۔ سامان کی چھانٹی اور تقسیم بھی بہت دنوں کا کام تھا۔
اتنے زیادہ جہاں جو کشتی اور ہزارہا اونٹوں اور گھوڑوں اور اتنی زیادہ فوج کو چھپایا نہیں جاسکتا تھا، یہ توقع ختم ہو چکی تھی کہ دشمن کو بے خبری میں جا دبوچیں گے۔
وہ پانچ چھ سو باغی عرب جنہیں راجہ داہر نے مکران میں آباد کر دیا تھا کہیں دور نہیں تھے وہ مکران کے ہی ایک علاقے میں موجود تھے اس علاقے میں ہندو بھی رہتے تھے لہذا یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ راجہ داہر بے خبر رہے گا وہ اپنی راجدھانی اروڑ (موجودہ روہڑی) میں تھا اور اسے یہ خطرہ ہو ہر وقت نظر آتا رہتا تھا کہ عرب سے مسلمان آئیں گے اور اب وہ زیادہ جنگی طاقت کے ساتھ آئیں گے وہ چوکنا تھا اور اس نے دیبل میں مقیم اپنی فوج کو چوکس رکھا ہوا تھا۔
محمد بن قاسم اس علاقے میں اجنبی تھا ،اس علاقے سے وہ واقف نہیں تھا، ریگزار ہونے کی وجہ سے کچھ اپنائیت سی نظر آتی تھی، عرب کے گھوڑے اور اونٹ ریتیلی زمین کے عادی تھے لیکن اس علاقے سے واقفیت ضروری تھی، رات کے وقت محمد بن قاسم مکران کے امیر محمد بن ھارون کے پاس بیٹھا سندھ کا نقشہ دیکھ رہا تھا ،امیر مکران اسے اہم مقامات اور فاصلے بتا رہا تھا۔
ابن ہارون!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں نے اسی عمر میں کئی دشمن دیکھ لئے ہیں، اور میں نے لڑائیوں کا تجربہ بھی حاصل کر لیا ہے، لیکن ابھی غداروں سے پالا نہیں پڑا، اس علاقے میں ایک دو نہیں سینکڑوں غدار موجود ہیں۔
کیا تم ان عربوں کی بات کر رہے ہو جنہیں راجہ داہر نے پناہ میں رکھا ہوا ہے۔۔۔ امیر مکران محمد بن ہارون نے پوچھا۔
میں صرف بات نہیں کررہا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں پریشان ہوں ان کی تعداد زیادہ ہے اور یہ سب جنگجو ہیں یہ راجہ داہر کا ہی ساتھ دیں گے، اس نے ان پر بہت بڑا احسان کیا ہے ۔
پہلی دونوں لڑائیوں میں ہمیں کہیں سے بھی اطلاع نہیں ملی کہ ان میں سے کوئی عرب داہر کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوا ہو۔۔۔ محمد بن ہارون نے کہا ۔۔۔ہمارے جاسوسوں نے بھی کوئی ایسی خبر نہیں دی، انہوں نے یہ بتایا تھا کہ داہر نے علافی کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی لیکن علافی رضامند نہیں ہوا تھا ۔
آپ پر اللہ کی رحمت ہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔آپ کی عمر اور تجربے کو دیکھتے ہوئے میں آپ کی بات کو تسلیم کرتا ہوں، لیکن اس پر بھی غور کریں کہ اس سے پہلے عرب سے اتنی فوج نہیں آئی تھی، میں حیران ہوں کہ امیر عراق وشام حجاج بن یوسف نے سالار عبداللہ بن نبہان، اور سالار بدیل بن طہفہ کو اتنی تھوڑی فوج کیوں دی تھی، اب اتنی زیادہ فوج کو دیکھ کر راجہ داہر ادھر ادھر سے مدد حاصل کرے گا ،مدد کے سلسلے میں وہ ان عربوں کو ضرور پکارے گا اور انہیں کسی نہ کسی طرح رضامند کر لے گا کہ اس کی مدد کو آئیں۔
کیا ہم علافیوں کو راجہ داہر سے دور رکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں؟،،،،، امیر مکران نے کہا ۔۔۔وہ اس کی ایک لڑائی لڑ چکے ہیں، ایک بڑا طاقتور راجہ راجہ داہر کا دشمن تھا جس نے اس پر حملہ کیا تھا اگر ہمارے یہ عرب بھائی اس کی مدد کو نہ پہنچتے تو ہمارے بہری مسافروں کو لوٹنے اور قید کرنے کے لیے داہر موجود نہ ہوتا ۔
کیا تم پسند کرو گے کہ محمد حارث علافی کو یہاں بلایا جائے؟
کیا اسے بلایا جاسکتا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا.
بلانے پر شاید نہ آئے۔۔۔ محمد بن ہارون نے کہا ۔۔۔میں اسے خفیہ طور پر پیغام بھیج سکتا ہوں اور ایک جگہ بتا سکتا ہوں جہاں ہم دونوں چلے جائیں گے، یا تم اکیلے چلے جانا اور اس کے ساتھ بات کر لینا۔
میں تو وہاں تک جانے کے لئے تیار ہو جہاں وہ رہتا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
نہیں ابن قاسم !،،،،،محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ تم بڑی جرات والے جنگجو اور بڑے قابل سالار ہو سکتے ہو، لیکن اپنے جس بھائی کے دل میں دشمنی ہو اس کے متعلق یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس وقت وہ کیا کر بیٹھے گا، اسے ایسی جگہ بلانے کی کوشش کریں گے جو نہ ہماری جگہ ہوگی نہ آسکی ۔
امیر مکران نے اپنے ایک آدمی کو بلایا۔
ابن ہرثمہ !،،،،،محمد بن ہارون نے اس آدمی سے کہا ۔۔۔یہ کام تم ہی کرسکتے ہو، بنو اسامہ کے سردار حارث علافی کو ایک پیغام دینا ہے پیغام دینا،،،،،پیغام دینا تو کوئی مشکل نہیں اصل کام یہ ہے کہ اسے ایک جگہ بلانا ہے۔
بلانے کا مقصد کیا ہے ؟،،،،امیر مکران۔
اسے کہنا محمد بن ھارون تمہیں ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔ امیر مکران نے کہا۔
کیا میں اسے یہ بتا سکتا ہوں کہ عرب سے فوج آئی ہے اور اس کے متعلق وہ کوئی بات کرے تو میں کیا کہوں؟
اگر اسے معلوم ہے تو یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ فوج نہیں آئی۔۔۔ محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ فوج کیوں آئی ہے ،تو خود عقل والا ہے ہم اسے ملنا چاہتے ہیں ہمارا مقصد وہ خود سمجھ لے گا، وہ دانش مند آدمی ہے، محمد بن ہارون نے ابن ہرثمہ کو ایک جگہ بتائی اور کہا کہ علافی کل عشاء کی نماز کے بعد وہاں پہنچ جائے۔

محمد بن قاسم کو مکران میں آئے ہوئے آٹھ روز گزر چکے تھے بحری جہازوں اور کشتیوں سے سامان اتارا جا چکا تھا، اور دیبل پر حملے کی صورت میں جس سامان کی ضرورت تھی وہ مطلوبہ جہازوں پر لادا جا رہا تھا، محمد بن قاسم نے حرب و ضرب کے اسلامی اصولوں کے مطابق جاسوس ان علاقوں میں بھیج دیے تھے جہاں پیش قدمی اور حملے کرنے تھے۔ فوج حملے کی تیاریاں کر رہی تھی مکران کے اس علاقے میں جہاں عرب کی فوج اتری تھی بہت ہی گہما گہمی تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے راتوں کو بھی سب جاگتے رہتے ہیں۔ راجہ داہر دربار لگائے بیٹھا تھا کہ دربان نے اندر آ کر اطلاع دی کہ ایک شتر سوار کوئی ضروری خبر لے کر آیا ہے ،اسے فوراً اندر بلا لیا گیا وہ آدمی دوڑتا ہوا اندر آیا اور دستور کے مطابق فرش پر دوزانو ہوا راجہ کے آگے ہاتھ جوڑے اور جھک کر دوہرا ہو گیا۔
کیا خبر لائے ہو؟
پانی۔۔۔۔ ایک گھونٹ پانی۔۔۔ خبر لانے والے کے منہ سے پوری طرح آواز بھی نہیں نکل رہی تھی اس کا منہ پیاس سے کھل گیا تھا۔
مہاراج کی جئے ہو ۔۔۔اس آدمی نے پانی پی کر کہا ۔۔۔وہ فوج نہیں انسانوں گھوڑوں اور اونٹوں کا دریا ہے جو عرب سے آیا ہے اور مکران میں روکا ہے، سمندری جہازوں سے جو سامان اترا ہے اس کا کوئی حساب اور شمار نہیں ،فوج کی جو تعداد ہے وہ میں بتا نہیں سکتا سمندر پر جہاز اور کشتیاں اتنی زیادہ ہے کہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔
یہ ایک آدمی سرحدی چوکی سے آیا تھا اس کی چوکی سندھ اور مکران کی سرحد پر تھی اسے کسی مسافر نے بتایا تھا کہ مکران میں عربوں کی فوج اتر رہی ہے ،وہ خود بھیس بدل کر اور اونٹ پر سوار ہو کر وہاں گیا اور اپنی آنکھوں دیکھا وہ حیرت زدہ ہی نہیں خوف زدہ بھی تھا ،اسے وہاں پتہ چلا تھا کہ خشکی کے راستے بھی فوج آئی ہے اور سمندر سے بھی، وہ الٹے پاؤں چلا اور اپنی چوکی پر صرف یہ اطلاع دی کہ وہ اروڑ جا رہا ہے اس نے اونٹ دوڑا دیا راستے میں اس نے دو اونٹ بدلے اور کم سے کم وقت میں اروڑ پہنچا، اس نے داہر کو جو رپورٹ دی اس میں مبالغہ بھی تھا۔
راجہ داہر نے دربار برخاست کیا اور اپنے فوجی اور دیگر مشیروں کو بلایا جن میں اس کا دانشمند وزیر بدہیمن خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔
داہر نے انہیں بتایا کہ عرب ایک بار پھر حملے کے لیے آئے ہیں، اسے جو تفصیلات معلوم ہوئی تھی وہ اس نے انہیں بتائیں۔
ہمارے ہاتھوں دو سالار مروا کر اور وہ شکستیں کھا کر ان عربوں کو ہماری طاقت کا اندازہ ہوا ہے۔۔۔۔۔راجہ داہر نے اپنے مشیروں وغیرہ سے کہا ۔۔۔اسی لئے اب یہ زیادہ فوج اور زیادہ سامان ساتھ لائے
ہیں ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے، انہیں موت بار بار یہاں لے آتی ہے، اب ایک بڑی فوج کو بازی پر لگانے آئے ہیں ہم یہ بازی بھی جیت لیں گے،،،،، تم سب کیا مشورہ دیتے ہو؟
اس کے فوجی مشیروں سرداروں نے جو مشورے دیے ان میں ٹھوس مشورے کم تھے اور دیسی ڈھینگیں زیادہ تھیں، جیسی داہر نے ماری تھی، انھیں ایک احساس تو یہ تھا کہ لڑنا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی تھا کہ اپنے راجہ کی خوشنودی کی خاطر اس کی ہاں میں ہاں بھی ملانی ہے، اس کا صرف ایک وزیر بدہیمن تھا جو سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ،جب سب باری باری بول چکے تو بدہیمن بولا۔
میدان جنگ میں تلوار چلا کرتی ہے تکبر نہیں۔۔۔ بدہیمن نے کہا۔۔۔ مہاراج جہاں تیر اڑا کرتے ہیں وہاں تکبر کی اڑان ختم ہوجاتی ہے، ہرقل نے بھی مسلمانوں کو کمزور سمجھا تھا یزدگرد نے بھی کہا تھا کہ عرب کے مسلمان اس کے گھوڑے تلے کچلے جائیں گے ،یہ کوئی فرضی قصہ کہانی نہیں کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی دو طاقتوں کا نام و نشان مٹا دیا ہے۔
ہاں !،،،،،راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں مسلمانوں نے ہندوستان کے ہاتھیوں کو بھگا دیا تھا، کیا نام تھا اس جگہ کا؟
قادسیہ!،،،،، وزیر بدہیمن نے کہا ۔۔۔یہ مسلمان ان ہی کی اولاد ہیں یہ ہماری فوج کو بھی بھگا سکتے ہیں، اب اگر وہ زیادہ فوج لائے ہیں تو اس فوج کا کمانڈر بھی زیادہ تجربے کار ہو گا ،ہوسکتا ہے حجاج بن یوسف خود کماندر ہو جسے وہ سالار کہتے ہیں، کیا مہاراج ان عربی مسلمانوں سے سنا نہیں کہ حجاج کتنا جابر آدمی ہے ،اس کے متعلق ان عربوں نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ خلیفہ کو تو کچھ سمجھتا ہی نہیں وہ اپنا قانون اور اپنا حکم چلاتا ہے۔
اگر وہی سپہ سالار ہوا تو کیا ہو گا؟،،،،، راجہ داہر نے پوچھا۔۔۔ میں اپنی فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھوں گا۔
اور یہ بھی سوچ لیں مہاراج !،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ لڑائیاں صرف میدان میں نہیں لڑی جاتیں، ہر لڑائی تیر اور تلوار سے ہی نہیں لڑی جاتی ،ہر لڑائی میں فتح طاقتور کی ہی نہیں ہوتی، اور کمزور کی قسمت میں ہار نہ ہی نہیں لکھا ہوتا ،کمزور چاہے تو طاقتور کو اپنے پاؤں میں بٹھا سکتا ہے۔
وہ کیسے؟،،،،، راجہ داہر نے کچھ حیران سا ہو کر پوچھا۔۔۔ اور جواب کا انتظار کیے بغیر بولا۔۔۔ اگر ہمارا وزیر یہ چاہتا ہے کہ ہم میدان میں نہ اترے اور کوئی فریب کاری کرکے دشمن کو شکست دے دیں تو ہمارا خون ہمیں اس کی اجازت نہیں دے گا ،ہم میدان میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑیں گے اور تلوار کے جوہر دکھائیں گے، ہم نے جنہیں دو بار گھٹنوں بٹھایا ہے تیسری بار بھی انہیں بھگادینگے۔
لیکن اب بات کچھ اور ہے مہاراج!،،،،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔ اگر حجاج اس لشکر کا سپہ سالار ھے تو میدان جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوگا ،میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مہاراج اپنے محل میں بیٹھے رہیں گے، لڑنا تو ہے ہی فوجیں آمنے سامنے ضرور آئے گی، لیکن دشمن کو کمزور کر کے سامنے لایا جائے تو اس کی گردن جلدی کٹ جائے گی۔۔۔۔۔مہاراج پوچھتے ہیں وہ کیسے۔۔۔۔ وہ اس طرح کے ایک کمزوری ایسی ہوتی ہے جو طاقتور کو کمزور اور کمزور کو طاقتور بنا دیتی ہے، جس طرح راجہ راج سنگھاسن سے جدا نہیں ہوسکتا، اسی طرح مرد عورت کے بغیر نہیں رہ سکتا ،اور جس طرح بادشاہ اپنے تاج میں دنیا کا سب سے زیادہ قیمتی ہیرا جوڑنا چاہتا ہے اس طرح ہر مرد دنیا کی سب سے زیادہ حسین عورت کو اپنی ہوس کی تسکین کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔
بات ذرا صاف کرو ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اور بات وہ کرو جو عمل میں آ سکتی ہو۔
عورت ایک نشہ ہے۔۔۔ داہر کے دانشمند وزیر بدہیمن نے کہا۔۔۔ دولت اس نشے کو اور تیز کرتی ہےاور جب حکومت مل جاتی ہے تو نشہ مکمل ہو جاتا ہے، اور یہ نشہ انسان کی عقل اور غیرت کو سلا دیتا ہے ،پانچ سو عربی مسلمان ایک مدت سے ہمارے ساتھ ہیں میں نے انہیں بڑی غور سے دیکھا ہے ان کی فطرت کی گہرائی میں جاکر جانچا ہے، اور ان سے ان حاکموں کے متعلق معلوم ہوا ہے، جو عرب کے حکمران ہیں، میں نے ان میں یہ کمزوری دیکھی ہے تلوار سے پہلے انہیں عورت سے مارو انہیں دولت سے اندھا کرو۔
کیا تم حجاج اور اس کے لشکر کی بات کر رہے ہو؟،،،،،، راجہ داہر نے پوچھا۔
نہیں !،،،،بدہیمن نے جواب دیا ۔۔۔میں ان عربوں کی بات کررہا ہوں جنہیں آپ نے اپنے سائے میں رکھا ہوا ہے ،مہاراج پچھلی لڑائی میں دیکھ چکے ہیں کہ ان عربوں نے عربوں کے خلاف لڑنے سے انکار کردیا تھا۔
انکار کردیا تھا حالانکہ ان کی اس قبیلے کے ساتھ دشمنی ہے جس قبیلے کے قبضے میں خلافت ہے، یہ لوگ بنو اسامہ کے ہیں اور خلیفہ بنو امیہ سے تعلق رکھتا ہے، اس دشمنی کے باوجود انہوں نے لڑنے سے انکار کیا اب ضرورت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ان کے خلیفہ کے قبیلے کی اور حجاج کی دشمنی کو ہوا دے کر بھڑکایا جائے، اور کوئی طریقہ اختیار کیا جائے کہ ان کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔
اب مجھے وہ طریقہ بتاؤ جن سے میں ان باغی عربوں کے خون کو گرما دوں۔۔۔ داہر نے کہا۔ مہاراج کی جے ہو!،،،،، بدہیمن نے کہا ۔۔۔یہ کام میرا ہے، مہاراج اپنی فوج کو تیار کریں۔ مبدہیمن نے کچھ دیر سوچ کر کہا ۔۔۔لڑائی کے داؤ پیچ مہاراج خود بہتر سمجھتے ہیں، لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ کہیں بھی قلعے سے باہر فوج نکال کر نہ لڑا جائے ،مسلمان دیبل پر آئیں گے مہاراج کی راجدھانی کی اتنی قیمت نہیں جتنی دیبل کی ہے، کیونکہ دیبل بندرگاہ ہے، مکران سے دیبل کے راستے میں دو قلعے ہیں مسلمان انہیں سر کریں گے اور وہ سر کر لیں گے، لیکن اس کا فائدہ مہاراج کو پہنچے گا، وہ اس طرح کے وہاں مسلمانوں کی طاقت صرف ہو گی اور انہیں بہت دن محاصرے میں بیٹھنا پڑے گا اس سے یہ ہوگا کہ ان کے پاس رسد اور خوراک کا جو ذخیرہ ہے وہ کم پڑ جائے گا ،اس طرح دیبل تک پہنچتے ان کی آدھی طاقت ضائع ہو جائے گی، وہ دیبل کو محاصرے میں لیں تو بھی مہاراج اپنی راجدھانی میں رہیں ،فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمان جب یہاں تک پہنچیں گے تو وہ تھکن سے چور ہوں گے، اس وقت ہم باہر سے ان عربوں سے حملہ کروائیں گے جو مکران میں آباد ہیں۔
راجہ داہر کے وزیر بدہیمن کے مشوروں میں اتنا وزن تھا کہ داہر اور اس کے سالار اسی وقت مسلمانوں کا حملہ روکنے کا پلان بنانے لگے، اس میں انہوں نے زیادہ زور ان زمین دوز اور تخریبی طریقوں پر صرف کیا جو بدہیمن کے دماغ میں آرہے تھے، بدہیمن زمین کے نیچے سے وار کرنا چاہتا تھا ،اس دوران راجہ داہر نے اپنے ایک سالار سے کہا کہ وہ عقلمند قسم کے آدمی مکران بھیجے جو عربوں کی فوج کی صحیح نفری معلوم کریں اور معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ عربوں کا سپہ سالار کون ہے
امیر مکران محمد بن ھارون، اور محمد بن قاسم کو توقع نہیں تھی کہ حارث علافی ان سے ملنے پر راضی ہوجائے گا ،لیکن یہ ایک معجزے سے کم نہ تھا کہ علافی نے نہ صرف یہ کہ مقررہ وقت اور جگہ پر آنے کا وعدہ کیا بلکہ جو آدمی ملاقات کا پیغام لے کر گیا تھا اسے علافی نے عزت و احترام سے رخصت کیا تھا۔
محمد بن ھارون اور محمد بن قاسم چند ایک محافظوں کو ساتھ لے کر گئے، یہ مشورہ محمد بن ھارون کا تھا کہ محافظوں کو ساتھ رکھنا چاہیے وہ کہتا تھا علافیوں کے ساتھ دشمنی اس قسم کی ہے کہ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، محمد بن قاسم اکیلا جانا چاہتا تھا۔
جب وہ ملاقات کی جگہ پہنچے تو وہاں حارث علافی اکیلا کھڑا تھا ،وہ نخلستان کی قسم کی جگہ تھی، محمد بن ھارون اس جگہ سے واقف تھا وہاں پہنچنے سے ذرا پہلے محمد بن ھارون محافظوں کو بتایا تھا کہ جب اس جگہ پہنچیں تو وہ اس جگہ کے اردگرد پھیل جائیں اور چوکس رہیں کہ کوئی اور ان کے گھیرے کے اندر نہ آئے۔
چاندنی رات تھی صحرا کی چاندنی ٹھنڈی اور شفاف ہوا کرتی ہے، علافی اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑا تھا، محمد بن ھارون اور محمد بن قاسم گھوڑے سے اترے اور اس تک پہنچے، علافی نے دونوں کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
ہم دونوں ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔۔۔ محمد بن ہارون نے حارث علافی سے کہا ۔
اور ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں۔۔۔ علافی نے کہا۔۔۔ اور محمد بن قاسم کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔میں اس نوجوان کو پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔۔۔ قاسم کے بیٹے تم ہی ہو ؟،،،،حجاج کے بھتیجے ؟
میں ہی ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اور میں اس فوج کا سپہ سالار ہوں جو یہاں آئی ہے۔
کیا دو سالار مروا کر حجاج نے جنگ کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا ہے ۔۔۔علافی نے کہا ۔۔۔کیا اسی عمر میں تم اتنے تجربے کار ہوگئے ہو کہ جو جنگ دو منجھے ہوئے سالار ہار گئے ہیں وہ تم جیت لو گے، تم میں اس سے بڑھ کر اور کیا خوبی ہوسکتی ہے کہ تم حجاج کے بھتیجے ہو۔
فتح اور شکست اللہ کے اختیار میں ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں آپ کو یہ بتانے نہیں آیا کہ مجھ میں کیا خوبیاں ہیں، یہ ضرور کہوں گا کہ حجاج نے مجھے سپہ سالار اس لیے نہیں بنایا کہ میں اس کا بھتیجہ ہوں، کیا ہم وہ بات نہ کریں جس کے لئے میں نے آپ سے ملنے کی خواہش کی تھی؟
بات وہی ہو جائے تو اچھا ہے۔۔۔ علافی نے کہا۔۔۔ لیکن میں ایک بات کہوں گا تم لوگوں نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا کہ اتنے سارے محافظوں کو ساتھ لے آئے ہو، اعتبار تو مجھے تم پر نہیں کرنا چاہیے تھا کیوں کہ میں تمہارا باغی ہوں مجھے اپنی گرفتاری سے ڈرنا چاہیے تھا ،لیکن میں اکیلا آگیا ہوں میرے ساتھیوں نے مجھے روکا تھا۔
خدا کی قسم !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔آپ نے جو اعتماد مجھ پر کیا ہے اس کی قیمت میں نہیں دے سکتا اللہ دے گا ،آپ کو امیر مکران نے نہیں میں نے بلایا ہے اور میں نے آپ کو عرب کی آبرو اور اسلام کی عظمت کے نام پر بلایا ہے، میں آپ کو حکم نہیں دے سکتا گزارش کی ہے کہ ملاقات کا موقع دو، جس قانون کے آپ باغی ہیں میں آپ کو اس قانون کی دھونس نہیں دے رہا۔
اور میں جانتا ہوں تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہو ؟،،،،،حارث علافی نے کہا۔۔۔ اور تم نہیں جانتے کہ جن قیدیوں کو تم آزاد کرانے آئے ہو انہیں آزاد کرانے کے لیے تین باغی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں ،وہ قید خانے میں داخل ہوگئے تھے لیکن اللہ کو منظور نہ تھا ،میں اپنے بہت سے آدمیوں کے ساتھ قید خانے سے کچھ دور انتظار کرتا رہا ،میں نے قیدیوں کو اپنے پاس چھپانا پھر انھیں عرب تک پہنچانا تھا، وہ جو قیدیوں تک پہنچ گیا تھا اس کا نام بلال بن عثمان تھا۔
حارث علافی نے اس کوشش کی تفصیل سنائی جو قیدیوں کو رہا کرانے کے لئے کی گئی تھی، لیکن ناکام ہوگئی تھی۔
میں انہی قیدیوں کو آزاد کرانے آیا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن میں واپس جانے کے لئے نہیں آیا مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے ۔
کیا اموی خلیفہ نے تمہیں کہا تھا کہ علافیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنا ،یا تم حجاج کے مشورے پر عمل کررہے ہو،،،،،، اس نے محمدبن ہارون کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔ یہ سوچ امیر مکران کی بھی ہو سکتی ہے۔
نہیں میرے دوست!،،،، محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ یہ ابن قاسم کی اپنی سوچ ہے ۔
میں شیراز سے آرہا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں دمشق نہیں گیا، اور میں بصرہ بھی نہیں گیا، میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ میرے سالاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ باغی عرب جو مکران میں ہیں وہ عداوت کی بنا پر سندھ کے راجہ کا ساتھ دیں گے، میں خود یہی خطرہ محسوس کر رہا ہوں،،،،،،میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری مدد نہ کرے لیکن یہاں کے راجہ کا بھی ساتھ نہ دیں ورنہ اسلام کی تاریخ میں یہ منحوس اور مکروہ حقیقت آجائے گی کہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے اپنے بھائیوں کو شکست دلانے کے لئے ہندوؤں کا ساتھ دیا تھا، میں جانتا ہوں آپ کے دل میں ہمارے خلاف کدورت بھری ہوئی ہے۔
میرے عزیز ابن قاسم!،،،،، علافی نے کہا ۔۔۔تم پر اللہ کی رحمت ہو، تم اپنی عمر سے زیادہ دانش مند ہوں میرے دل میں اور ہر باغی عرب کے دل میں کدورت بھری ہوئی ہے ،لیکن یہ بنو امیہ کے خلاف ہے تم اموی نہیں ثقفی ہو ،تمہیں شاید کسی نے بتایا ہوگا کہ جب سعید بن اسلم کلابی مکران میں امیر مقرر ہوا تھا تو ہمارا ایک سردار سفہوی بن لام الحامی مکران آیا ،امیر مکران سعید بن اسلم کلابی نے اسے کوئی حکم دیا۔ سفہوی نے اسے کہا کہ تمہارا حکم ماننے کو میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ سعید بن اسلم نے اسے قید میں ڈال دیا پھر اسے قتل کرا دیا،،،،، ابن قاسم!،،،،، تیرے چچا حجاج نے بھی ہمارے ساتھ دشمنی پیدا کر لی تھی ،سفہوی ہم میں سے تھا علافیوں میں سے تھا، میرے قبیلے کے کچھ آدمیوں نے امیر مکران سعید کو قتل کرکے سفہوی کے قتل کا انتقام لیا۔
ہاں !،،،،محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ سعید کو قتل کرنے والے تمہارے ہیں دو بیٹے تھے ایک کا نام معاویہ اور دوسرے کا نام محمد تھا۔
پھر ابن قاسم!،،،،، علافی نے کہا ۔۔۔تمہارے چچا حجاج نے ہمارے قبیلے کے ایک سردار سلیمان علافی کو قید میں ڈالا اسے قتل کیا اور اس کا سر کاٹ کر سعید بن اسلم کلابی کے گھر بھیج دیا کہ ان کے جذبہ انتقام کی کچھ تسکین ہو جائے۔
یہ ہماری خاندانی دشمنیاں ہیں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں آپ کو یہ دشمن دکھا رہا ہوں جس نے آپ کو دوست بنا رکھا ہے۔
مت بتاؤ مجھے ابن قاسم !،،،،،حارث علافی نے کہا ۔۔۔مجھے ایسا نہ سمجھو کہ خاندانی دشمنی کی خاطر میں ا اور اپنے مذہب کے دشمن کو دوست بنا لوں گا ،مایوس نہ ہو علافی تمہاری مدد کریں گے، لیکن تمہارے ساتھ نہیں ہوں گے، ہماری دشمنی حکمران سے ہے ،اپنے وطن اور اپنے مذہب سے نہیں، برے اور نااہل حکمران کے خلاف کوئی کاروائی کرنا غداری نہیں، بلکہ نااہل اور خود غرض حکمران سے اپنے ملک کو آزاد کرانا حب الوطنی ہے ،ہم اپنے وطن کے باغی نہیں، ہم ایوان خلافت کے باغی نہیں ہیں، ہم ان کے باغی ہیں جو خلافت کے اہل نہ تھے مگر مسند خلافت پر قابض ہوگئے ہیں۔
مورخ بلاذری لکھتا ہے کہ حارث علافی محمد بن قاسم سے اور محمد بن قاسم حارث علافی سے بہت متاثر ہوا ،علافی نے وعدہ کیا کہ وہ راجہ داہر کا ساتھ نہیں دے گا اور وہ درپردہ راجہ داہر کی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا ۔اس نے یہ نہ بتایا کہ وہ کیا طریقہ اختیار کرے گا نہ اس نے محمد بن قاسم سے پوچھا کہ وہ کس طرح پیش قدمی کرے گا ،اور اس کا پہلا حملہ کہاں ہوگا۔
یہاں کی فوج لڑنے میں کیسی ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ لوگ اتنی بے جگری سے لڑتے ہیں کہ انہوں نے دو بار ہماری فوج کو شکست دی ہے، اور دونوں فوجوں کے سالار کو مار ڈالا تھا؟
اگر ان پر اپنا خوف طاری کر دو گے تو داہر کی فوج کی بہادری ختم ہوجائے گی۔۔۔علافی نے کہا ۔۔۔یہاں کے سپاہی بہادر نہیں تو بزدل بھی نہیں، پہلی دو لڑائیوں میں وہ اس لئے بہادر ہو گئے تھے کہ تمہاری فوجوں نے تھوڑی تعداد میں حملہ کیا تھا، اور بڑی عجلت میں حملہ کیا تھا ،حجاج نے داہر کی فوج کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کیا تھا ،اتنی دور آ کر حملہ کرنے کے اہتمام ہی کچھ اور ہوتے ہیں، مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ تم اپنے ساتھ کیا کیا لائے ہو؟،،،،،اتنے زیادہ سازوسامان اور اتنے زیادہ گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ تم کوئی جذبہ بھی لائے ہو تو کوئی لشکر تمہارے مقابلے میں بہادر نہیں، اگر تم اپنے چچا حجاج اور خلیفہ کو خوش کرنے کے لئے آئے ہو تو داہر کی فوج بہت بہادر ثابت ہوگی اور شکست تمہارا مقدر ہوگی۔
جاری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں