امریکی فوج نے ’آدھے انسان، آدھے روبوٹ سپاہی‘ بنانے کی تیاری کرلی

واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع کی ایک خفیہ رپورٹ حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ امریکی فوج ’سائبورگ سپاہی‘ بنانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے؛ اور اگر یہ منصوبہ اپنی طے شدہ تاریخوں کے حساب سے آگے بڑھتا رہا تو پھر امریکی افواج میں 2050 تک سائبورگ سپاہی شامل ہو کر جنگ لڑنے کےلیے تیار ہوں گے۔

واضح رہے کہ ’سائبورگ‘ کو ایک ایسا انسان سمجھا جاسکتا ہے جو ’’آدھا انسان اور آدھی مشین‘‘ ہو۔ اس تصور کو سائنس فکشن فلموں میں بہت بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

تاہم، عسکری جریدے ’’آرمی ٹائمز‘‘ کے مطابق، امریکی فوج کے تحت سائبورگ سپاہی بنانے کا منصوبہ خاصا مفصل ہے کیونکہ اس میں بطورِ خاص اُن تکنیکی پہلوؤں اور ٹیکنالوجیز کی وضاحت کی گئی ہے، جن کی بدولت مشینوں کو انسانی وجود کا حصہ اس انداز سے بنایا جاسکے گا کہ انسانی صلاحیتوں میں اضافہ ہو جبکہ وہ جسمانی طور پر کسی روبوٹ کی طرح مضبوط بھی ہو۔

اس منصوبے میں انسانوں کو ’’اپ گریڈ‘‘ کرنے کےلیے امریکی فوج میں آئندہ 30 سال کے دوران جن چار نکات پر خصوصی توجہ دی جائے گی ان میں (مشینی ذرائع استعمال کرتے ہوئے) سپاہیوں کو غیرمعمولی طور پر مضبوط بنانے کے علاوہ ان کی بصارت اور سماعت تیز کرنا بھی شامل ہیں۔ اس مقصد کےلیے انہیں جدید ترین آلات سے لیس کرنے کے علاوہ اندرونی طور پر ایسے آلات کی تنصیب بھی کی جائے گی۔

البتہ، اس منصوبے کا چوتھا پہلو زیادہ توجہ طلب ہے۔ اگرچہ رپورٹ میں یہ نکتہ خاصے پیچیدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے لیکن عام فہم زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ سائبورگ فوجیوں کے دماغ اور اعصابی نظام کو براہِ راست ایک طاقتور کمپیوٹر سے منسلک کردیا جائے گا۔ اس چیز کو ’’مین مشین انٹرفیس‘‘ کہا جاتا ہے اور اس شعبے میں حاصل ہونے والی کامیابیاں ابھی ابتدائی مراحل پر ہیں۔

رپورٹ کے اختتامی حصے میں سائبورگ سپاہیوں سے پیدا ہونے والے عسکری عدم توازن اور عام فوجیوں میں احساسِ کمتری بڑھنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ اس خدشے کی روشنی میں سائبورگ سپاہیوں کو قانونی تحفظ دینے اور ان کےلیے اخلاقی/ سماجی فریم ورک مرتب کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

بتاتے چلیں کہ انسان اور مشین کا ملاپ، ٹیکنالوجی کا ایک ایسا دیرینہ خواب ہے جس کی تعبیر میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ لیکن امریکی فوج کی مذکورہ دستاویز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید امریکی ادارے اس تعبیر کو ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔