آر وائی گولڈ اور ارسس ٹریکٹرز ریفرنسز: اسلام آباد ہائی کورٹ نے آصف علی زرداری کے خلاف نیب سے ریکارڈ طلب کرلیا

اسلام آباد (زرائع) اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کے اے آر وائی گولڈ اور ارسس ٹریکٹرز ریفرنسز کی سماعتوں سے متعلق ریکارڈ طلب کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے نیب کی جانب سے ان دونوں ریفرنسز میں آصف زرداری کی بریت کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر نیب کے ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانا نے بتایا کہ عدالت کے 21 اپریل 2016 کے احتساب عدالت سے ریکارڈ طلبی کے حکم کے باوجود رجسٹرار آفس نے اب تک انہیں حاصل نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی متعلقہ برانچ سے اسے چیک کیا لیکن ریکارڈ اب تک حاصل نہیں کیا گیا’، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے استفسار کیا کہ عدالت کو الزمات سے متعلق بتایا جائے اور واضح کیا جائے کہ کیوں نیب نے اس بریت کو چیلنج کیا۔

عدالتی استفسار پر ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانا نے جواب دیا کہ احتساب کمیشن کی جانب سے آصف علی زرداری کے خلاف کیس رجسٹرڈ کیا گیا اور 1999 میں قومی احتساب آرڈیننس کے نفاذ کے بعد اسے احتساب عدالت کے احتساب بینچ کو منتقل کردیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 2007 میں اس وقت کی حکومت نے قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) متعارف کروایا اور نیب نے احتساب عدالت سے مقدمات واپس لے لیے، تاہم 2009 میں سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دیا گیا اور مقدمات واپس بحال ہوگئے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس وقت آصف علی زرداری صدر پاکستان کا عہدہ رکھتے تھے اور وہ صدارتی استثنیٰ سے فائدہ اٹھا رہے تھے، لہٰذا احتساب عدالت نے اے آر وائی اور ارسس ریفرنسز میں آصف زرداری اور دیگر ملزمان کو بری کردیا، جس کے بعد آصف زرداری نے بطور صدر اپنی مدت پوری کی جبکہ نیب کی سماعتیں بھی ان کے خلاف پوری ہوئیں۔

بعد ازاں 2011 میں ٹرائل کورٹ نے اے آر وائی گولڈ ریفرنس میں سابق سیکریٹری تجارت بریگیڈیئر (ر) اسلم حیات قریشی، اس وقت کے صدر کے پرنسپل سیکریٹری سلمان فاروقی، اے آر وائی گولڈ کمپنی کے مالک حاجی عبدالرزاق، حاجی عبدالرؤف اور جان محمد کو بری کردیا لیکن سابق وفاقی سیکریٹری خزانہ جاوید طلعت اور سوئس کمپنی ایس جی ایس کے ڈائریکٹر جین شلےگیل مچ کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔