کالعدم تنظیموں کے 44 ارکان حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل، مولانا مسعود اظہر بھی شامل

اسلام آباد (وائس آف ایشیا) وزارت داخلہ نے کالعدم تنظیموں کے 44 ارکان حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ حراست میں لئے گئے مولانا مسعود اظہر ، محمد مفتی عبدالرئوف اور حماد اظہر بھی شامل ہیں ۔اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور سیکریٹری داخلہ اعظم سلمان نے اس حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن تیز کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ کسی ایک یا دو کے خلاف نہیں بلکہ بلا تفریق تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور عمل کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں 44 افراد کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔

اعظم سلمان نے بتایا کہ زیر حراست افرادمیں مسعود اظہر کے بیٹے حماد اظہر اور بھائی مفتی عبدالرؤف شامل ہیں، مفتی عبدالرؤف اور حماد اظہر کے نام بھارت کے ڈوزیئر میں شامل ہیں، جن افراد کو حراست میں لیا گیا ان سے تفتیش کی جائے گی، بھارت کے ڈوزیئر میں کچھ چیزوں کا ذکر ہے شواہد نہیں،

ہمارے پاس شواہد نہیں لیکن کچھ لوگوں کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے جب کہ شواہدملنے پر حکومت کے پاس کسی بھی ادارے کو تحویل میں لینے کے اختیارات ہیں۔سیکریٹری داخلہ نے مزید کہا کہ ڈوزیئر میں جن کے نام ہیں وزارت خارجہ کے توسط سے بھارت سے شواہد مانگے ہیں، حفاظتی تحویل میں لیے گئے افراد کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں،

ثبوت ملے تو مزید کارروائی ہوگی اور اگر ثبوت نہ ملے تو حراست میں لیے گئے افراد کی نظر بندی ختم کردی جائیگی۔اعظم سلمان نے بتایا کہ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاونڈیشن کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہوچکا اور اس حوالے سے نوٹی فکیشن وزارت داخلہ کریگی۔وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے اور ہمارا یکشن 2 ہفتے جاری رہے گا۔

پاکستانی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور کوئی دوسرا ملک دخل اندازی نہیں کر سکے گا۔ یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے اور کسی کے دبائو میں آکر نہیں کررہے ۔ انہوںنے کہاکہ مفتی عبدالرئوف اور حماد اظہر کے نام بھارتی ڈوزیئر میں شامل ہیں تحویل میں لئے گئے کالعدم تنظیموں کے ارکان سے تفتیش کی جائے گی اور یہ تمام اقدامات نیشنل ایکشن پلان کے تحت کئے جارہے ہیں۔

شہر یار آفریدی کا کہنا تھاکہ نہیں چاہتے کہ پاکستان پر باہر سے الزام تراشیاں ہوں۔ ، نئے پاکستان میں قانون کی بالادستی کا عزم ہے یہ کارروائیاں کسی دبائو میں آکر نہیں کررہے بلکہ ملکی مفادمیں کررہے ہیں،اگر کچھ ثابت ہوگیا تو مزید کارروائیاں کی جائیں گی۔یاد رہے کہ اس سے قبل خبر آئی تھی کہ حکومت نے عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیا۔

موجودہ حکومت نے ملک میں شدت پسند اور عسکری تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے آغاز کا فیصلہ کیا تھا۔ انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کی تصدیق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بھی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے سیاسی اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام عسکری تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہاں بات بھی قابل ذکر ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے 21 فروری کو ہونے والے اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ جبکہ کچھ تنظیموں پر دوبارہ پابندی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی قومی مفاد میں کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے چیزیں درست کرنے کی ضرورت ہے، ہم اس مسئلے کو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔

موجودہ سیاسی اتفاق رائے پاکستان کو مثبت سمت گامزن کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں