اچھی صحت کے لیے باقاعدگی سے پیدل چلنے کی ورزش شروع کرنے کا فیصلہ کیا،لیکن جب جاڑے آتے ،سخت سردی کی وجہ سے وہ یہ ورزش ترک کر دیتا اور پھر موسم ٹھیک ہونے پر یہ سلسلہ شروع کر دیتا۔اس کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ گھر پر کسی قسم کی ورزش نہیں کر سکتا تھا۔
جاڑوں کے پورے موسم میں چوں کہ بھوک بھی خوب لگتی تھی ،اس لیے وہ جی بھر کر مٹھائیاں ،کیک ،پیسٹریاں ، بسکٹ وغیرہ کھاتا اور پھر پیدل چل کر 18پونڈوزن کم کرلیتا، دوبارہ پیدل چلنے کی ورزش شروع کرنا کچھ آسان نہیں ہوتا تھا۔
جسم کو عادی بننے میں ہر سال وقت لگتا تھا ،پھر تھکن بھی ستاتی تھی۔اپریل کی ایک رات اسے پیاس نے بہت تنگ کیا۔ایک گھنٹے کے اندر وہ کولا مشروب کے کئی ڈبے پی گیا۔صبح اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی ۔
وہ جیسے تیسے اسپتال پہنچا،جہاں اس کے ٹیسٹ ہوئے اور اسے ذیابیطس کا مریض قرار دے دیا گیا،ایک ہفتے تک وہاں روزانہ اُسے انسولین کے ٹیکے لگا ئے گئے اور جب خون میں شکر کی سطح معمول پر آگئی تو اسے خود ٹیکے لگانے کا طریقہ سکھانے کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی،
اسپتال میں قیام کے دوران عمران ذیابیطس کے مریضوں کے لیے منعقدہ کلاس میں بھی شریک ہوتا رہا، اس کلاس میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے غذائی پر ہیز کی تفصیلات بتائی جاتی تھیں ،اس طرح اسے معلوم ہو گیا کہ صحت بخش غذائیں کون سی اور مضرِ صحت غذائیں کون کون سی ہیں ۔
اسے یہ بھی بتایا گیا کہ اب بازار سے کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے سلسلے میں کیا احتیاط کرنی چاہیے، سب سے اہم بات یہ بتائی گئی کہ ورزش اس سلسلے میں بہت موٴثر ثابت ہوتی ہے ،نہ صرف یہ کہ اس سے خون میں شکر کی سطح کم رہتی ہے ،بلکہ اس کی وجہ سے کھایا پیا صحیح طور پر ہضم بھی ہو جاتا ہے
اور جسم میں توانائی بر قرار رہتی ہے ، جب موسم ٹھیک ہو گیا تو اس نے اگلی صبح سے چہل قدمی کا پروگرام پوری سنجیدگی سے شروع کر دیا۔کبھی بارش بھی ہونے لگتی تو وہ چھتری تان کر نکل جاتا اور35منٹ چہل قدمی کر کے گھر لوٹتا ۔
اس نے اب پاؤں چکی (ٹریڈمل )بھی خرید لی تھی ۔موسم بہت خراب ہوتا تو اس مشین کے پٹے پر وہ 35منٹ تک بھا گتا، اس کے علاوہ دفتر آتے جاتے بھی 2میل پیدل چلنے لگا۔اس کی غذائی عادات بدل گئی تھیں ،اب وہ میدے سے بنی ہوئی چیزیں نہیں کھاتا تھا۔
سبزیاں ،بے چھنے آٹے کی روٹی ، بسکٹ بغیر بالائی کا دودھ ، دہی اس کی معمول کی غذا کا حصہ بن گئے ۔اب وہ دن میں تین کھانے کھا تا تھا۔کھانے کے دو تین گھنٹے بعد کوئی پھل کھاتا ۔چپس کی جگہ گاجر کھاتا اور کبھی میٹھا کھانے کو جی چاہتا تو پھل کھا کر تشفی کر لیتا ،
گھر سے باہر ہوٹل وغیرہ میں اُبلی یا سینکی ہوئی مچھلی کھالیتا اور کبھی روغنی کھانا کھابھی لیتا تو رات کا کھانا بہت مختصر اور ہلکا کھاتا،بلکہ کبھی صرف سبزیوں کے سلاد پرہی گزارا کر لیتا، اس کا معمول تھا کہ وہ ہفتے کی رات تلی ہوئی مچھلی ،تکے اور آلو شوق سے کھاتا تھا ،
لیکن اب یہ چیزیں اسے پسند نہیں تھیں ۔وجہ صرف یہ تھی کہ اب اس میں صحت کی اہمیت کا شعور پیدا ہو گیا تھا، اسپتال سے لوٹنے کے ایک مہینے بعد اس غذائی اور ورزشی معمول کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے اب انسولین کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔صرف آدھی گولی کھالیا کرتا تھا