لیبیا میں‌لڑنے والی تنظیم کے ترکی اورایران سے مراسم :دستاویزات میں انکشاف

الریاض(مانیٹرنگ ڈیسک)ایبٹ آباد میں القاعدہ کے بانی سربراہ اساہ بن لادن کے مبینہ ٹھکانے سے ملنے والی دستاویزات میں ایک انکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ لیبیا میں لڑنے والی ایک جنگجو تنظیم کے مراکز ترکی میں بھی موجود ہیں اور اسے ترکی کی حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم کیاجاتا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق بن لادن دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ لیبیا میں لڑنے والے جنگجو کمانڈر عبدالحکیم بلحا المعروف ابو عبداللہ الصادق کی تنظیم کے ٹھکانے ترکی میں بھی موجود ہیں۔ انہوں نے سنہ 1990ء کے عشرے کے دوران ایرانی رجیم اور قذافی حکومت اور مصر کے ساتھ جاری کشیدگی سے فایدہ اٹھا کر ایران سے مدد لینے تہران سے رابطہ رکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔
دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ تہران میں موجود القاعدہ کے ایک کمانڈر کی طرف سے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ لیبیا میں لڑنے والی تنظیم ایرانی رجیم کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ کا تعارف عبدالحکیم بلحاج المعروف ابو عبداللہ الصادق کے نام سے کیا جاتا ہے۔ یہ تنظیم ایرانی رجیم اور قذافی حکومت کے درمیان کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر ایران کے قریب ہونا چاہتی تھئ۔
تاہم تنظیم کے بعض رہنمائوں جن میں ابو المنذر ابو یحییٰ خاص طورپر شامل تھے نے ایران کے ساتھ تعلقات کے قیام کی کوششوں کی مخالفت کی۔ انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ ایران کے ساتھ صرف ناگزیر حالات میں تعلقات کے قیام کی تجویزپر غور کیا جاسکتا ہے۔ البتہ عبدالحکیم بلحاج دیگر ساتھیوں کی رائےسے اختلاف کیا۔
عبدالحکیم بلحاج
خیال رہے کہ عبدالحکیم بلحاج جس کا تنظیمی نام ابو عبداللہ الصادق ہے لیبیا کی عدالتوں کی طرف سے اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ وہ ان پرانے لیبی شہریوں میں شامل ہے جنہوں‌نے اسامہ بن لادن کے ساتھ مل کر سنہ 1988ء میں افغان جنگ میں‌ حصہ لیا تھا۔ سنہ 1990ء کے عشرے میں انہوں نے لیبیا میں ایک جنگجو تنظیم قائم کی۔ اسے لیبیا میں القاعدہ کی شاخ قرار دیا گیا۔ بلحاج افغانستان، ترکی اور قطر جیسے ممالک میں سفر کرتا رہا۔ سنہ 1995ء میں اس نے قذافی رجیم پر ضرب لگانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کی مگر ناکام رہا اور دوبارہ افغانستان چلا گیا۔ فروری 2004ء کو امریکی انٹیلی جنس اداروں‌نے اسے بنکاک سے حراست میں لے کرلیبیا کے حوالے کردیا۔ وہ 7 سال تک جیل میں قید رہا۔ سنہ 2010ء میں قذافی کی طرف سے قیدیوں کو عام معافی کے نتیجے میں اس کی رہائی عمل میں لائی گئی۔ رہائی کے بعد وہ دوبارہ قذافی رجیم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے حکومتی اداروں پر تباہ کن حملے کرائے۔
جولائی 2017ء کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے عبدالحکیم بلحاج کو قطر کے ماتحت چلنے والے 12 اداروں اور 59 دیگر افراد کے ساتھ بلیک لسٹ کردیا۔ بلحاج ‘لیبی انقلاب بریگیڈ’ کا سربراہ ہے۔ مغربی لیبیا میں موجود اس تنظیم کے ارکان کو قطر کی طرف سے خصوصی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
ترکی بحران سے نکلنے کا راستہ
لیبیا میں لڑنے والی تنظیم کے سابق رہنما نعمان بن عثمان نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بن لادن دستاویزات میں لیبیا کے اس لڑاکا گروپ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ عبدالحکیم بلحاج سمیت کئی دوسرے لیبی جنگجو گروپوں نے بحران سے نکلنے کے لیے ترکی کو ایک اڈے کے طورپر استعمال کیا۔ بحران سے نکلنے کے بعد وہ مشرقی ایشیا، چین، انڈونیشیا اور ملائیشیا کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں نعمان بن عثمانن نے بتایا کہ لیبی جنگجو گروپ کے بعض عناصر ایران بھی آتے جاتے ہیں۔ ان میں سامی الساعدی اور عبدالحکیم بلحاج ایران کے سفر کے حوالے سے مشہور ہیں۔
بن لادن دستاویزات کے مطابق عبدالحکیم بلحاج ملائیشیا، پھر چین میں عرب جنگجوئوں کے ایک گروپ کے ساتھ مقیم رہا۔ اس کے ساتھ لیبیا، مصر اور خلیجی ممالک کے جنگجو شامل تھے۔ اسے یورپ جاتے ہوئے بنکاک کے ہوائی اڈے سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *