سانحہ ساہیوال، مدینہ کی ریاست اور پولیس

تحریر:محمد حسین آزاد
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غریبوں کے ساتھ ظلم اور نا انصافی کوئی نئی بات نہیں۔روز کوئی نیا ظلم وبربریت کی داستان سامنے آجاتا ہے۔ بے گناہ اور معصوم لوگوں کو مارا جاتا ہے اور کوئی بھی اس کا پوچھنے والا نہیں ہوتا۔کل ساہیوال میں بھی اسی طرح کا ایک دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا ۔ ساہیوال میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے نام پر تین بچوں کے سامنے ماں باپ اور بڑی بہن کو مار ڈالا۔ گاڑی میں موجود بچوں کے باپ خلیل کا دوست بھی سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ہاتھوں مارا گیا۔ مارے جانے والے بے گناہ افراد کے بارے میں سی ٹی ڈی نے متضاد بیانات دئے۔ایک بیان کے مطابق مارے جانے والوں کا تعلق کالعدم تنظیم ’’داعش ‘‘ سے بتایاگیا۔ دوسری بیان میں انسداد دہشت گردی پولیس کے مطابق مارے جانے والے لوگ ڈکیٹ تھے جو بچوں کو اغوا کرکے لے جا رہے تھے۔ اسی طرح سی ٹی ڈی نے مختلف متضاد بیانات داغ دئیے ۔میڈیا رپوٹس ، عینی شاہدین اور اہل محلہ کے مطابق مقتول فیملی لاہور سے ایک شادی پر بوری والا جارہی تھیں کہ انسداد دہشت گردی پولیس کے ظلم کا شکار ہوگئی۔سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مقتول خلیل کی والدہ اپنے بیٹے، بہو اور پوتی کی قتل کا غم برداشت نہ کرسکی اور اور ان کے پیچھے چل بسی۔ ریاستی اداروں کے عوام پر مظالم کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ایک سال پہلے کراچی میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایک پختون جوان نقیب اللہ محسود کوبے دردی سے مارڈالا اور اس کو دہشت گرد کا نام دے دیا۔اس معاملے پر ریاستی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر لوگوں نے آواز بلند کی ۔ چیف جسٹس نے اس واقعے پر سوموٹو ایکشن لیا اور میڈیا کی شدید دباؤ پر راؤانور کو مجرم ٹہرا دیا ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مقتول نقیب اللہ محسود کے گھر والوں کو آج تک انصاف نہیں ملی۔ اگرنقیب اللہ محسود کو انصاف مل جاتی تو آج ساہیوال میں یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ ساہیوال سانحہ رونما ہونے کے بعد کئی صحافیوں و تجزیہ نگاروں نے ایسی پیشن گوئیاں کی ہیں جیسے سن کر کوئی اپنے وطن عزیز پاکستان میں رہنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ ایک تجزیہ نگارلکھتے ہیں،’’ سی ٹی ڈی کا یہ پہلا ظلم نہیں ، سینکڑوں کی تعداد میں بے گناہ لوگوں کو مارنااس ’’ریاستی بندے مار‘‘ ادارے کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔درجنوں ایسے افراد بھی شہر میں موجود ہیں جو سی ٹی ڈی کے بھیانک ظلم کا شکار ہوکر ذہنی توازن کھوبیٹھے ہیں۔‘‘ ایک جگہ تو بہت ہی خطرناک پیشن گوئی کی ہے، ’’ میں نے کئی ایسی فیملیز بھی دیکھ رکھی ہیں کہ جن کے مرد ماضی میں کسی مذہبی جماعت کا حصہ رہے تھے، لیکن ایک مدت سے وہ اب اپنے بیوی بچوں کو پالنے کے لئے محنت مذدوری کا سہارا لئے ہوئے تھے، مذہبی بیک گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے ان کی بیویاں بھی باپردہ تھیں لیکن جیسے ہی سی ٹی ڈی نے انہیں اپنا ’’مہمان ‘‘بنا یا توان کی باپردہ بیویاں سی ٹی ڈی کے وحشی افسران کی ہوس کا نشانہ بن گئیں۔ سی ٹی ڈی کے کسی بے تکلف افسر یا اہلکار کے پاس بیٹھیں تو ایسی ’’ رنگین کہانیاں‘‘ بھی آپ کو بڑی تعداد میں سننے کو ملے گی۔‘‘حکومت میں آنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان اکثر نواز شریف اور زرداری کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنا تے تھے اورکہتے کہ ہماری حکومت آئے گی تو انصاف کا بول بالا ہوگا ، پولیس اور دوسری ریاستی اداروں کی بدمعاشی نہیں چلے گی۔ انہوں نے مدینہ کی ریاست بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا جو اکثر اب بھی اپنی تقریروں میں ا س کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن اس کی حکومت آتے ہوئے تقریباََ پانچ مہینے گزر گئے،اور اب تک آپ نے پولیس کا نظام نہین بدلا نہ اس محکمے میں کوئی اصلاحات لائے۔پولیس کی بدمعاشی اب بھی چلتی رہی ہیں۔ساہیوال کی اس اندوہناک واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اورالیکٹرانک میڈیا نے بھی اسے زیر بحث لایا۔ حکومت نے اس واقعے پر ایکشن لیا، جے آئی ٹی بنانے اور تحقیقات کرانے کا حکم دیا ۔اور واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکار کو گرفتار بھی کر لئے ۔ لیکن کیا اس سے پولیس کی بدمعاشی ختم ہوجائے گی؟ نہیں ، یہ تو وہی پرانا طریقہ کار ہو گا جیسے پرانے پاکستان میں ہوتا تھا۔ اب یہ عمران خان کا ’’نیا پاکستان‘‘ ہے جیسے دیکھنے کے لئے لوگوں نے بہت انتظار کیا ہے۔ اب حکو مت کا فرض بنتی ہے کہ ساہیوال واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی افسروں کو عبرتناک سزا دی جائے تاکہ کل کوئی افسر یا با اختیارشخص اپنی اختیارات سے تجاویز کرنے کا تصور بھی نہ کرے۔وزیر اعظم عمران خان کو چاہئیے کہ پولیس سسٹم سمیت ہر محکمے میں نئی اصلاحات لائی جائے۔ ایسے درندہ قسم کے لوگوں کو سسٹم سے دور کریں تاکہ تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے ورنہ ایسی طرح پاکستان میں غریب عوام کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہوتی رہے گی، جے آئی ٹی بنتی رہے گی، مجرموں کو راؤ انوار کی طرح برائے نام پکڑا جائے گا ، اور مدینے کی ریاست کا نعرہ محض نعرہ ہی رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *