شعیب شیخ آزادی صحافت کا بہادر سپاہی

محمد نعیم قریشی
آزادی صحافت کو کسی بھی آزاد خیال یا جمہوری ریاست کا ایک لازمی جزو اور چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے،اور شاید ہی کوئی ایسی آزاد ریاست ہو جو آزادی صحافت کوآئینی طور پر تحفظ نہ دیتی ہیں،مگر کچھ ممالک ایسے ہیں جنھوں نے ریاست کے اس اہم ستون کو لگام ڈالنے کی کوشش کی ہے جس میں سب سے پہلے بھارت کا نام آتاہے مگر بھارت کے تجزیہ کار ان دنوں پاکستان کا نام لے رہے ہیں،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت کا ایک ستون ہونے کے ناطے میڈیاہاوسسز کی بھی کچھ حدود میں ر ہیں اس کے لیے سب سے پہلے تو میڈیا کو منصفانہ، غیر جانبدار ہونا چاہیے اور بغیر کسی خوف کے حقائق فراہم کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے، میڈیا کو معلومات فراہم کرنے کے لیے اپنے ہی کام میں متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ طاقتور لوگوں کی دھمکیاں اور اوچھے ہتھکنڈے جو حقائق کو روکنے اور سامنے نہ لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اگر رپورٹر نڈر ہو تب بھی میڈیا ہاوسسز کے دیگر بڑوں کے آگے کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی کردی جاتی ہے،گزشتہ ایک دہائی کے دوران دنیا بھر میں صحافت کی آزادی خراب ہو رہی ہے صحافیوں کا قتل عام اور من مرضی کے بیانات نشر کروانا اب ریاستی اداروں کا کام رہ گیاہے دنیا کی کچھ بااثر جمہوریتوں میں موجود لیڈروں نے میڈیا کے شعبے کی آزادی کو سلب کرنے کی مظبوط کوششوں کی سرپرستی کی ہے جس سے آزادی صحافت کے اس اہم ستون میں واضح طور پر دراڈیں دیکھی جاسکتی ہیں، پڑوسی ملک بھارت میں آزادی صحافت کا عجب حال ہے جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس نے ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت میڈیا کو اپنے قابومیں رکھنے کا کام کیا ہے۔اپنے آپ میں سب سے بڑی جمہوری ریاست ہونے کا دعویدار بھارت مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے لیے مختلف حربوں کا استعمال کرتارہتاہے۔امریکی نشریاتی ادارے ”نیو یارک ٹائمز”نے اپنی ایک رپورٹ میں بھارت میں آزادی صحافت کو لاحق خطرات کے بارے میں اگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ مودی نے بھارت میں صحافت کا گلہ گھونٹ دیا۔جبکہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ جو چینل سچ بولتاہے تو اس کی آواز کو بند کروادینے کی کوشش کی جاتی ہے،من مرضی کی خبریں اور بیانات چلانے والے نیوز چینل اور اخبارات کو حکومتیں نوازتی بھی ہیں اور انہیں ستارہ جرات جیسے تمغوں سے نوازتی بھی ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں آنے سے پہلے پچھلی حکومتوں نے اپنی جعلی ترقی کے نام پر میڈیا میں اشتہارات چلوائے،مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانامہ کیس آنے کے بعد میڈیا ہاؤسز کو اربوں روپوں کے اشتہارات دیئے تاکہ عوام کو پانامہ کیس کے سلسلے میں گمراہ کیا جاسکے یعنی عوام کا زہن کسی اور جانب لگادیا جائے،لیکن عمران خان نے عوام میں اتنی بیداری پیدا کردی تھی کہ اربوں کے اشتہارات بھی عوامی رائے کو تبدیل نا کرسکے۔ میڈیا کے حوالے سے عمران خان کی حکومت کی پیکا آرڈیننس میں کی گئی ترمیم کے خلاف سب سے پہلے میں نے مذمت کی ایک اور ایک وی لاگ پر اسے آنے والے دنوں میں خود عمران خان کے خلاف قراردیاجو بعدمیں سچ ثابت ہوا۔ اگر ہم آجکل آزادی صحافت کا حال دیکھیں تو ہمیں صحافت چاروں طرف زنجیروں میں جکڑی ہوئی د کھائی دیگی۔پاکستان میں گزشتہ پندرہ برس میں 115 صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو قتل کیا گیا، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر حکومت کے نزدیک آزادی رائے اور اس کی حفاظت کیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ دس سالوں میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا نے تیزی سے ترقی کی ہے۔2002ء میں صرف 2 ٹیلی ویژن اسٹیشنز تھے۔ آج ملک میں 90 سے زائد ٹی وی اسٹیشنز اور 135 پرائیویٹ ایف ایم چینلز کام کر رہے ہیں لیکن سوال ایک یہ بھی ہے کہ میڈیا ہاوسسز میں شامل یہ تمام ادارے مکمل آزادی کے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں یا نہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس وقت اگر کوئی نیوز چینلز حکومت کی کرپشن اقربا پروریاں،نااہلیاں،بے جا شاہ خرچیاں اداروں میں موجود کرپشن کا احوال بتائے تو اسے تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والا صحافی یا چینل قرار دیدیا جاتاہے اور جو چینل حکومت کی نااہلیوں پر پردہ ڈالے رکھے تو وہ اس حکومت میں آزادی اور بغیر کسی گرفتاری اور مقدمے کے اپنا کام جاری رکھ سکتاہے، اس وقت پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن، موجود صحافی اور تجزیہ کار حضرات ایک نجی نیوز چینل (بول) کے مالک شعیب شیخ کی گرفتاری کو ملک میں آزاد میڈیا اور سیاسی اختلاف کو خاموش کروانے کے طور پر دیکھتے ہیں،اس چینل سے وابسطہ سینئر صحافی سمیع ابراہیم اور جمیل فاروقی اور عمران ریاض آئے روز حکومتی عتاب کا نشانہ بن رہے ہیں ان صحافیوں پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا،ایک صحافی ارشد شریف کا قتل کیوں اور کیسے ہوا اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا،گزشتہ دنوں بول نیوز کے شریک چیئرمین شعیب احمد شیخ عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے، جہاں نامعلوم افراد انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے ساتھ لے گئے۔ شعیب شیخ پر جج کو مبینہ رشوت دینے کا الزام تھا،اس سے قبل بھی شعیب شیخ کو اٹھارہ ماہ جیل میں رکھا گیا مگر ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔اس بار بھی سندھ ہائی کورٹ نے چیئرمین بول نیوز شعیب شیخ کو رہاکرنے کا حکم اور تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے جس پر عملدرآمد نہ ہوسکا ہے کیونکہ حکومت نے شاید اس بار شعیب شیخ اور ان کے میڈیا ہاوس کو مکمل طورپر قدوغن لگانے کا فیصلہ کیاہواہے شعیب شیخ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا آدمی ہے جو آزادی صحافت کی مدد سے اشرافیہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا جو اس کا قصور ٹھر،ا ماضی میں ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس میں شعیب شیخ سمیت 23 ملزمان کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جو ثابت نہ ہونے پر کلعدم قرار پائی۔ میرا حکومت کو ایک مشورہ ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا سب سے بڑا حسن ہے۔ جمہوریت ان ہی ملکوں میں پروان چڑھی ہے جہاں اختلاف رائے کو برداشت کیا گیا ہے ورنہ سراسر بدنامی ہی حکومتوں کا مقدر بنتی رہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان جب امریکی کیمپ میں چلا گیا تو وہ صحافی جو کمیونزم کا پرچار کرتے تھے ان کیلئے مشکل پیدا ہو گئی، سینکڑوں کی تعداد میں پروگریسیو صحافیوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا جن میں مشہور اور معروف شاعرفیض احمد فیض بھی شامل تھے۔جنرل ایوب دور میں پریس اینڈ پبلکیشن آرڈیننس (1962) کے ذریعے صحافت کا گلا دبا کر رکھا گیا جسے لوگ آج بھی برے لفظوں سے یاد رکھتے ہیں ایوب حکومت پر تنقید کرنا جرم بن چکا تھا اور 60 سے 70 ایسے چھوٹے بڑے اخبارات بند کر دیئے گئے اور 80 سے 100 کے قریب معروف اور غیرمعروف صحافیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا جو ایوب مارشل لا پر سوال کرنے والے تھے۔بھٹو دور میں میڈیا کو کھل کر آزادی نہیں ملی پی این اے کی تحریک میں صحافیوں پر ظلم ہوا۔ 1989 میں صدر غلام اسحاق خان نے رجسٹریشن آف پرنٹنگ پریس آرڈیننس نافذ کر کے میڈیا سے واچ ڈاگ کی حیثیت کو ختم کیا۔ تاریخیں اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہیں،اور نتائج یہ ہیں کہ ان ملکوں میں جمہوریت پر سوال اٹھے اور حکمرانوں کو سوائے رسوائی کے کچھ نہ مل سکایہ وہ ممالک ہیں جہاں مخالف آوازوں کو دبانے یا کچلنے کی کوششیں کی گئیں۔۔آپ کالم نگارکے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اورو اٹس ا پ پر رائے دیں۔00923003508630