امریکا میں کورونا وائرس کے حملے میں تیزی

واشنگٹن: اس وقت جبکہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی دوسری لہر نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں اس وبا کی تیسری لہر بھی شروع ہوچکی ہے۔

واضح رہے کہ کووِڈ 19 کی عالمی وبا سے مقابلے میں امریکا اور بھارت کو ناکام ترین ممالک قرار دیا جارہا ہے جہاں اب تک اس وبا کی شدت نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔

جمعہ 23 اکتوبر کو امریکا میں کورونا وائرس کے 83,757 مصدقہ نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 26 اکتوبر کو یہ تعداد 74,323 رہی۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع شدہ ایک تجزیئے کے مطابق، امریکا میں اب تک کورونا وائرس کی دو لہریں آچکی ہیں جبکہ کورونا وائرس متاثرین کی تعداد میں حالیہ اضافے کو تیسری لہر قرار دیا جارہا ہے۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تیسری لہر کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے جبکہ دسمبر 2020 تک امریکا میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ سے بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ سرِدست یہ تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اکتوبر کا مہینہ بھی ختم نہیں ہوا ہے۔

امریکا میں ادویہ اور غذاؤں سے متعلق مرکزی ادارے ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ (ایف ڈی اے) کے سابق سربراہ اسکاٹ گوٹلیب نے گزشتہ روز سی این بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں خیال ظاہر کیا کہ بیشتر امریکی ریاستوں میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ بہت کم وقت میں اور بہت تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔

طبی ماہرین ٹرمپ انتظامیہ کے طرزِ عمل پر شدید نالاں ہیں جس نے پہلے اس وبا کی موجودگی سے انکار کیا، پھر اس کا پھیلاؤ روکنے میں تاخیر کرنے کے ساتھ ساتھ ناکافی اقدامات کا سہارا لیا۔ اب امریکی حکومت کا سارا زور اس وائرس کی دوا (بشمول ویکسین) تیار کرنے پر ہے لیکن اب بھی کورونا وبا کو قابو کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں کورونا وبا کی پہلی لہر کبھی ختم ہی نہیں ہوئی تھی اس لیے یہاں دوسری اور تیسری لہر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے قطع نظر کہ امریکا میں کورونا متاثرین کی تعداد میں حالیہ اضافے کو تیسری لہر کہا جائے یا نہیں، اتنا بہرحال طے ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بڑی وبا کے مقابلے میں خود کو بدترین طور پر ناکام ثابت کردیا ہے۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں