🌹زندہ درگور🌹…قسط #3

تحریر: منورہ نوری خلیق

اب ہے کیا لاکھ بدل چشمِ گریزاں کی طرح
میں ہوں زندہ تیرے ٹوٹے ہوئے پیماں کی طرح

اس دور پرآشوب کا قصہ جب لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، اسے بھی باپ نے موت کی نیند سلانے کے لئے زندہ دفن کرنا چاہا تھا مگر لوحِ تقدیر میں تو کچھ اور ہی لکھا تھا۔۔۔

مگر اس نے یہ نہیں کہا نہ وہ ایسا کہنے کی جرأت کرسکتا تھا بلکہ اس نے کامدار کو دیکھا پھر جوشن شاہ کو دیکھ کر ادب سے بولا۔
“حضور! کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ حسین موسم کا لطف گھر میں بیٹھ کر بھی لیا جائے۔”
“مگر گھر کا موسم تو ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔”
جوشن نے قہقہہ لگایا۔
“وہ تو بدل ہی نہیں سکتا۔ تم جب بھی جاؤ گے وہی ملے گا، لہذا موسم کا لطف لینے کے لئے تو سفر ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔”
اس بات کو کسی نے بھی رد نہ کیا، نہ اس کی ضرورت تھی، نہ ماحول۔
“ہاں۔۔۔۔۔۔!”
جوشن شاہ نے قدرے ٹھہر کر خود ہی کہا۔
“ہاں، یہ بات سو فیصد درست ہے کہ سفر کا مزہ اچھے ساتھی کے ساتھ دوبالا ہوجاتاہے۔”
“بالکل، بالکل۔۔۔۔۔۔۔!”
کامدار نے بات بڑھائی۔
“دس ساتھیوں کے بجائے ایک ساتھی ہو مگر پسندیدہ ہو۔”
“واہ۔۔۔۔۔! واہ۔۔۔۔۔۔۔! ”
جوشن شاہ نے بھرپور داد دی۔
“کامدار! تونے آج یہ بات کہہ کر ہمیں یقین دلا دیا کہ تو بہت سمجھدار اور خوبصورت ذہن کا مالک ہے۔ ہمیں تو آج تک معلوم ہی نہیں تھا کہ تیری سوچ اس درجہ حسین ہے۔”
کامدار نے اس تعریف پر اپنے ساتھی زمان کو دیکھا، شاید اسے یہ بات پسند نہیں آئی تھی کہ کامدار کی تعریف سردار کرے لہذا اس نے موضوع کو بدل دینے کی غرض سے ایک نئی بات شروع کی اور بولا۔
“حضور، آپ کا علاقہ اردگرد کے سب علاقوں سے بڑا ہے اور سب مانتے ہیں کہ زرخیز اور دولت مند بھی ہے۔”
جوشن شاہ نے یہ خوشمدانہ بات سنی اور بھول گیا کہ کیا کہہ رہا تھا اور زمان کا اصل مقصد کیا ہے، بس جلدی سے بولا۔
“کیا یہ سب لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارا علاقہ سب سے زرخیز ہے؟”
“بے شک۔۔۔۔۔۔!”
کامدار نے بھی حصہ لیا۔
“جب سے چھوٹے سردار کی پیدائش ہوئی ہے، ہمارے علاقے نے سونا اگلا ہے اور ہمارے علاقے کے اجناس و پھل دور دور جاتے اور پسند کیے جاتے ہیں۔”
بیٹے کی پیدائش اور دولت جوشن شاہ کا پسندیدہ موضوع تھا جو اسے مسرور ہی نہیں، مغرور کردیتا تھا۔ اس وقت بھی وہ بری طرح مغرور ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے دونوں مصاحبوں کو دیکھا اور فخریہ لہجے میں کامدار کو دیکھ کر بولا۔
“کامدار۔۔۔۔۔۔! تیری یہ بات سچ ہے کہ جب سے ہمارا بیٹا فرخ شاہ پیدا ہوا ہے، ہمارے علاقے نے سونا اگلا اور جواہرات برسائے ہیں، ہم اس بات پر جس قدر بھی فخر کریں کم ہے، ہمیں لگتا ہے اور ہمارا بیٹا ہے بھی ایسا کہ کسی بھی سردار کا بیٹا ایسا نہیں ہے۔”
یہ کہتے کہتے اس نے اپنے دوسرے مصاحب کو دیکھا اور بولا۔
“کیوں زمان۔۔۔۔۔۔! تیرا کیا خیال ہے؟”
“سردار۔۔۔۔۔۔! آپ میری رائے پوچھتے ہیں۔”
زمان نے احترام سے کہا۔
“یہاں تو سب یہی کہتے ہیں کہ چھوٹے سردار فرخ شاہ اپنی شخصیت اور ذہانت میں لاثانی ہیں، صرف سات برس کی عمر میں ان کا علم و تربیت دوسرے بچوں سے بڑھ کر ہے۔”
دونوں مصاحب بڑھ چڑھ کر فرخ شاہ کی تعریف کرنے لگے اور جوشن شاہ خوشی سے دیوانہ سا ہونے لگا۔ علاقے کا ہر فرد اس کی کمزوری سے واقف تھا کہ اپنے بیٹے کی تعریف اسے پاگل کردیتی ہے۔ چند ستائش کے جملے کہہ کر کوئی بھی جو چاہتا، اس سردار سے کروا لیتا تھا۔
ابھی وہ محوِ سفر تھا اور خوشامدی بڑھ چڑھ کر چاپلوسی کررہے تھے کہ ایک دم سے سامنے سے دوڑ کر آنے والی چند چھوٹی بڑی لڑکیوں کے قہقہوں نے ان سب کی توجہ لوٹ لی۔ جوشن شاہ نے دیکھا، ان سب لڑکیوں میں ایک چند سالہ لڑکی متاثر کردینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی تھی۔
آنکھیں گہری گہری اور ذہین، چہرہ کشادہ اور روشن، آواز موسیقی سے بھری ہوئی اور تمام شخصیت جیسے نور کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، سردار جوشن شاہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس نے بڑے بڑے حسن دیکھے تھے، حسین نظاروں نے اسے بے خود کیا تھالیکن دل کی یہ حالت تو کبھی بھی نہیں ہوئی تھی، غیر اختیاری طور پر اس نے اپنا گھوڑا روک لیا اور اسے رکتے دیکھ کر کامدار اور زمان دونوں نے اپنے گھوڑے روک لیے۔
جوشن شاہ نے قدرے رک کر اس لڑکی کو دیکھا، ان گھڑ سواروں کو دیکھ کر یہ بچیاں دوڑتے ہوئے رک گئیں تھیں اور اسی کی جانب دیکھ رہی تھیں، شاید تیز دوڑنے کے باعث اس بچی کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا، سانس تیز تیز چل رہی تھی اور اس کی دو چوٹیاں اسے بہت کم عمر ظاہر کررہی تھیں۔ اس نے پوچھا۔
“اے لڑکی۔۔۔۔۔! تیرا نام کیا ہے؟”
“میرا باپ اور میری سب سہیلیاں مجھے آجر کہتی ہیں۔”
لڑکی نے جواب دیا اور جوشن شاہ کو لگا کہ فضا میں گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ اس نے لمحہ بھر اسے حیرانی سے دیکھا یا اپنے دھڑکتے ہوئے دل کی کیفیت کو محسوس کیا پھر زمان کی جانب دیکھ کر بولا۔
“ہم نے پہلے کبھی اس لڑکی کو نہیں دیکھا؟”
“جناب! یہ ہمارے ہی علاقے کی لڑکی ہے۔”
زمان نے کہا۔
“اپ کا گزر اس جانب سے کم ہوا ہے۔ یہ اکثر اپنی ساتھی لڑکیوں کے ساتھ اسی میدان میں کھیلتی ہے البتہ یہ بات میں نہیں جانتا کہ یہ کس کی لڑکی ہے۔ مگر میں اسے بارہا دیکھ چکا ہوں۔”
“مگر تم نے دور دراز کی لڑکیوں کی خبر تو ہمیں دی، اس بارے میں کیوں نہیں بتایا؟”
جوشن شاہ نے شکایت کی۔
“ہمارے علاقے میں ایسی لڑکی موجود ہے، اور ہمیں علم نہیں ہے۔”
اس وقت کامدار اور زمان خوفزدہ سے ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔📚
پیشکش:
✍🏻عبداللہ عزام۔🌹🌴