اورنیل بہتا_رہا/عنایت اللہ التمش #قسط_نمبر_2

ابن ولید !
عمرو بن عاص نے خالد بن ولید کو یہ ساری باتیں سنا کر کہا۔
تو چپ چاپ میری بات سن رہا ہے تیری اس خاموشی سے اس کے سوا اور کیا سمجھ سکتا ہوں کہ تجھے میری باتیں اچھی نہیں لگی۔
میری خاموشی پر مت جا میرے عزیز دوست خالد بن ولید نے کہا۔
مجھے بھی کچھ کہنا ہے جو میں کسی اور سے نہیں کہہ سکتا پہلے تیری پوری بات سن لو تو اپنی سناؤں گا۔
میں نے بتایا ہے نہ کہ چند آدمی بھی میرے ساتھ تیار ہو گئے ۔
عمر بن عاص نے کہا، ہم نے تجارت کو بہانہ بنایا اور چل پڑے
تجھے شاید حبشہ کا راستہ معلوم ہو ہی ہوگا۔
ہم یہاں سے چلے اور سمندر (بحرہ قلزم) کے ساتھ ساتھ چلتے یمن میں داخل ہو گئے۔
اور پھر عدن جاپہنچے عدن کے قریب اس جگہ پہچے جہاں سمندر بہت ہی کم چوڑا ہے۔
بڑی بادبانی کشتی پر ہم نے سمندر پار کیا اور پھر خشکی کا سفر شروع ہوگیا اور پھر تین چار پڑاؤ کر کے حبشہ کے دارالحکومت ادلیس ابابا پہنچ گئے تجھے یہ اندازہ ہوگا کہ یہ سفر کتنا طویل ہے اور کٹھن بھی لیکن ہم خیریت سے اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔
حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں گئے اور اسے پناہ مانگے اور یہ بھی کہا کہ تجارت پیشہ لوگ ہیں اس لیے اس پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالیں گے۔
اور پناہ کے سوا کوئی مدد نہیں مانگیں گے نجاشی نے ہمیں شاہی مہمانوں کی طرح رکھا اور ہمیں ایسی رہائش مہیا کردیں جو شاہی خاندان جیسی رہائش تھی۔
مجھے ان باتوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں خالد بن ولید نے کہا۔
میں یہ سننا چاہتا ہوں کہ تم واپس کیوں چلے آئے اور اب کہاں کا ارادہ ہے؟
میں دیکھ رہا ہوں تو اگر حبشہ سے ہی آیا ہے تو مکہ کیوں نہ رک گیا ۔
مکہ پیچھے بہت دور رہ گیا ہے۔
کیا تو کوئی خاص بات مجھ سے چھپا رہا ہے؟ نہیں ابن ولید، عمر بن عاص نے کہا تو میرا دوست ہے اور اہل قریش میں تجھے وہی برتر حیثیت حاصل ہے جو مجھے ، میں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے تجھے نہیں بتایا تھا کہ میں یہاں سے ہمیشہ کے لئے جا رہا ہوں یہ تو میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہا تھا کہ وہ بھی کسی کے ساتھ ذکر نہ کرے لیکن اب دل میں ایسی بات آگئی ہے جس کے متعلق میں فیصلہ نہیں کرسکتا اچھا ہوا تو مل گیا ہے۔
تیرے ساتھی کہاں ہیں؟
خالد بن ولید نے پوچھا۔
انہیں وہیں چھوڑ آیا ہوں۔
عمرو بن عاص نے جواب دیا ۔
میں جو ارادہ کرکے وہاں سے آیا ہوں میرے ساتھیوں کو یہ ارادہ پسند نہیں آیا اور میں ان کا ساتھ چھوڑ آیا ہوں میں سمجھتا تھا کہ تو راستے سے بھٹک گیا خالد بن ولید نے کہا لیکن تیری باتوں سے شک ہوتا ہے کہ تیری عقل صحیح سوچوں سے بھٹک گئی ہے ۔
اتنی لمبی باتیں نہ کر ابن عاص!
مجھے صحیح بتا دیے تیرا ارادہ کیا ہے اور تو کس منزل کا مسافر ہے؟
ابن ولید !—- عمر بن عاص نے کہا جب تک بات پوری نہ سنالوں اپنا ارادہ نہیں بتاؤں گا کیونکہ تو غلط سمجھ لے گا یہ تو تجھے معلوم ہے کہ ہمارے تاجر حبشہ جاتے رہتے ہیں ہم وہاں تقریبا ایک سال سے ہیں۔
ایک روز عربی تاجروں کا ایک قافلہ عدلیس ابابا پہنچا۔
اس میں میری جان پہچان کے لوگ بھی تھے ان سے پتہ چلا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر قبیلہ قریش کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے کی رو سے قریش اور مسلمان دس سال تک جنگ نہیں کریں گے پھر مجھے پتہ چلا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ساری شرطیں مان لی ہیں۔
اور طے پایا ہے کہ وہ ایک سال بعد عمرہ کرنے آئیں گے میں نے تسلیم نہیں کیا کہ ایسا معاہدہ ہوا ہوگا۔
لیکن تھوڑی ہی عرصہ بعد مکہ سے آیا ہوا ایک اور آدمی ملا ۔
اس نے بتایا کہ مسلمان اپنے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سال بعد عمرہ کرنے آئے تھے اور پرامن طریقے سے عمرہ کیا اورواپس چلے گئے۔
میں نے مکہ سے آنے والے اس شخص سے اور کی باتیں پوچھیں تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کیا قریش نے مسلمانوں کا غلبہ قبول کر لیا ہے۔
اور ان کی برتری کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔
ابن ولید تجھے میری بات اچھی لگے نہ لگے میں اپنے دل اور دماغ کی بات کرتا ہوں میں محمد کے کردار کا قائل ہوگیا ہوں ۔
اور سوچ سوچ کر میں اس رائے پر پہنچا کہ محمد کا ستارہ اقبال کے عروج پر پہنچ گیا ہے۔
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ مدینہ جا کر اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے پھر مجھے یہ پتہ چلا کہ قریش مدینہ پر یلغار کرنے گئے تھے لیکن مسلمانوں نے ایک نئی رکاوٹ سوچ لی اور قریش کی یلغار ناکام ہوگئی ہے۔
مسلمانوں نے مدینہ کے ارد گرد خندق کھودی تھی۔
خالد بن ولید بھی اس یلغار میں شامل تھے۔ اور انھوں نے گھوڑے سے یہ خندا پھیلانے کی کوشش بھی کی تھی اور ناکام رہے تھے اس لیے وہ جنگ خندق کی ہر بات عمر بن عاص کو سنا سکتے تھے۔
انہوں نے جنگ خندق کی پوری تفصیل سنائی اور مسلمانوں کے دانشمندی کو خراج تحسین پیش کیا کہ انھوں نے خندق کھود کر قریش کا حملہ ناکام کردیا تھا۔
پھر تو ہی بتا میرے عزیز دوست عمر بن عاص نے کہا ،میں مسلمانوں کے عسکری برتری کیوں نہ تسلیم کروں۔
میں نے یہ ساری تفصیل حبشہ میں سنی تھی اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارے اہل قریش کے پاس کچھ نہیں رہا ۔
میں اس سے خیال آیا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں وہ عظمت موجود ہے جو ہمارے قبیلے کے کسی بڑے بزرگوں میں ابھی تک حاصل نہیں ہوئی۔
میں جنگجو ہوں تو بھی جنگجو ہے۔
کیا ہم اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر کہیں اپنے جوہر دکھا سکتے ہیں؟
نہیں کبھی نہیں اب میں وہ بات کرنے لگا ہوں جو تجھے مشتعل کر دے گی اور ہوسکتا ہے تو مجھے قتل کر دینے کو تلوار نکالے۔
اپنے دل کی بات مجھ سے سن لے،
خالد بن ولید نے کہا ،، تو اسلام قبول کرنے کے ارادے سے آیا ہے کیا میں نے غلط کہا،
خدا کی قسم تم میرے دل کا بھید پا گیا عمرو بن عاص نے کہا لیکن میں اس ارادے کے باوجود بھٹک جاتا ہوں۔
اب خیال آتا ہے کہ میرا یہ فیصلہ صحیح نہیں شاید میں اپنے قبیلے سے رشتہ توڑنا نہیں چاہتا ۔
لیکن اپنے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی نہ کر سکے اور میں کہتا ہوں کہ وہ اسی قابل ہیں کہ مسلمان ان پر غالب آجائیں۔—-
ابن ولید!
مجھے بتا ،کیا میں ٹھیک فیصلے پر پہنچا ہوں
اگر میرا فیصلہ غلط ہے تو خدا کی قسم تجھے اجازت دیتا ہوں کہ میرا سر تن سے جدا کر دے ۔
خالد بن ولید نے آسمان کی طرف منہ کرکے بڑا سا جاندار کہاں لگایا پھر عمرو بن عاص کی طرف دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ ان کے کندھے پر رکھے اس وقت خالد بن ولید کے چہرے پر کچھ ایسی رونق تھی جسے جلال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ابن عاص! —- خالد بن ولید نے عمرو بن عاص کو کندھوں سے ہلکا سا جھٹکا دے کر کہا تیرا فیصلہ برحق ہے اپنے ارادے سے بھٹکنا نہیں۔۔۔ میں اس سفر میں تیرا ہمسفر ہوں۔۔۔ دونوں کی منزل ایک ہی ہے میں اسلام قبول کرنے کے لئے مدینہ جا رہا ہوں مکہ میں کسی کو بتا کر نہیں آیا ۔
آ میرے ساتھ چل! ۔۔۔
تاریخ لکھنے والوں کی شہادت موجود ہے کہ خالد بن ولید اور عمرو بن عاص اکٹھا مدینہ پہنچے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضری دی یہ بتانا ممکن نہیں کہ ان دونوں کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل کیا تھا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر کچھ لوگ بیٹھے تھے تو ان کے دلوں میں یہ شک ضرور پیدا ہوا ہوگا کہ یہ دونوں اچھی نیت سے نہیں آئے سب جانتے تھے کہ خالد بن ولید نے حضور صلی اللہ وسلم کے قتل کا عہد کر رکھا ہے۔
اتنا تو ضروری ہی ہوا ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس پر سناٹا طاری ہو گیا ہوگا ۔
اور یہ دونوں کوئی عام قسم کے آدمی ہوتے تو اور بات تھی سب ان دونوں کے متعلق جانتے تھے کہ انہیں اپنے اپنے قبیلے میں کتنی اونچی اور برتر حیثیت حاصل ہے۔
اچھا ہوا خالد بن ولید جلدی بول پڑے اور محفل پر جو کھچاؤ طاری ہو گیا تھا وہ ختم ہوگیا۔
میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے آیا ہوں خالد بن ولید نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں دل و جان سے آپ کی رسالت کو تسلیم کرتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کے بیعت قبول فرمائی اور انہیں حلقہ بگوش اسلام کر لیا پھر آپ نے عمروبن عاص کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔
عمرو بن عاص سرک کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے میں بھی آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتا ہوں عمرو بن عاص نے کہا ۔
لیکن بیعت سے پہلے یہ عرض ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں۔
اور آئندہ محتاط رہوں گا اسلام کے دائرے میں رہونگا اور اپنے آپ کو گناہوں سے پاک رکھونگا۔
مصر کے مشہور تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل مختلف حوالوں سے لکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن عاص سے کہا کہ گناہ معاف کرنے والا اللہ ہے اور جو توبہ کرکے اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اس کے پیچھلے تمام گناہ اس طرح دھل جاتے ہیں جس طرح ہجرت سے پچھلی تمام مصیبتیں ختم ہوجاتی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عاص سے کہا کہ وہ بیعت کرلیں اور اپنے آپ میں خود ہی تبدیلی محسوس کریں گے۔
اس طرح عمرو بن عاص نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خالد بن ولید اور عمرو بن عاص کو مکے سے جانتے تھے۔ آپ ان دونوں کی خوبیوں صلاحیتوں اور کردار سے خوب واقف تھے ۔
آپ نے ان دونوں کو اعتماد میں لے لیا بلکہ مورخ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کیا لیکن دونوں اس اعتماد پر پورے اترے اور اسلام کو دو عظیم سپہ سالار مل گئے۔۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
چونکہ یہ داستان فتح مصر کی ہے اس لئے ہم اپنے آپ کو اس کا پابند رکھیں گے ۔
اور انہیں سالاروں کا ذکر نمایاں طور پر کریں گے جنہوں نے فرعونوں کی زمین پر اسلام کے جھنڈے گاڑے تھے۔
ان سالاروں کے سپہ سالار عمر بن عاص تھے۔
فتح مصر کا خیال اور عزم عمروبن بن عاص کے دماغ میں ہی آیا تھا اور انہوں نے ہی امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو قائل کیا تھا کہ مصر پر فوج کشی کی جائے۔ امیرالمومنین رضامند نہیں ہو رہے تھے اور عمرو بن عاص کی تجاویز کو ٹالتے چلے آرہے تھے۔
آخر ایک روز وہ قائل ہو ہی گئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے عمرو بن عاص مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنے کے لئے ہی دنیا میں آئے تھے۔
یہ ساری تفصیلات اس داستان میں تفصیل سے سنائی جائیں گی۔
ان تفصیلات میں کچھ دلچسپ ہیں، کچھ فکر انگیز ہیں، کچھ ولولہ انگیز ہیں، اور کچھ درد ناک بھی ہیں، لیکن جو حقیقت ہمارے سامنے کھل کر آتی ہیں وہ قابل غور ہے۔
وہ یہ کہ اللہ جو کام کرنا چاہتا ہے اس کے لیے حالات خود ہی پیدا کردیتا ہے ۔
خالد بن ولید اور عمرو بن عاص کا خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور قبول اسلام کے لئے پہنچ جانا کوئی اتفاق نہ تھا ۔
اللہ تبارک وتعالی نے اسلام کو دو تاریخ ساز اور عظیم سپہ سالار عطا کرنے تھے۔
ان کے ہاتھوں رومیوں کے طاقت کو فنا کروانا تھا اور پھر عمرو بن عاص کے ہاتھوں مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنا تھا۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن عاص کے متعلق ایک واقعہ بیان کردیا جائے ۔
جسے زیادہ تر مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویسوں نے تاریخ کے دامن میں محفوظ کر دیا تھا ان میں بلاذری مقریزی اور ابن عبدالحکم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
واقعہ یوں ہے کہ عمربن عاص تجارت اور سیاحت کے سلسلے میں عراق شام فلسطین اور مصر تک جایا کرتے تھے ۔
یہ ان کے قبول اسلام سے بہت پہلے کا واقعہ ہے ایک بار عمروبن عاص چند ایک اہل قریش کے ساتھ تجارت کے سلسلے میں بیت المقدس گئے انہیں وہاں بہت دن رکنا تھا اور انہوں نے شہر کے باہر ایک کھلی جگہ ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
ان کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی ہر روز اونٹوں کو چرانے کے لئے قریبی جنگل میں لے جایا کرتا تھا۔
ایک روز اونٹوں کو چرنے چگنے کے لئے لے جانے کے باری عمرو بن عاص کی تھی دن کا پچھلا پہر تھا اور وہ اونٹوں کو کھول کر لے گئے اور ایک پہاڑی کے دامن میں لے جاکر کھلا چھوڑ دیا وہاں گھاس اور جھاڑیوں کی بہتات تھی اور درخت ہرے بھرے تھے موسم گرمیوں کا تھا اور ان دنوں گرمی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔
انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی پہاڑی سے اتر رہا ہے اس کے اترنے کا انداز بتا رہا تھا کہ اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں اور کسی بھی قدم پر وہ گر پڑے گا اور لڑکھڑاتا ہوا نیچے آئے گا ۔
اور شاید زندہ نہ ہی رہے۔
عمرو بن عاص ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے ۔
اور اس آدمی کو بڑی غور سے دیکھ رہے تھے۔
وہ آدمی پہاڑی سے تو اتر آیا لیکن اس سے چلا نہیں جا رہا تھا کبھی وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے گلے پر رکھ لیتا اور کبھی وہ روکتا اور اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ۔
وہ قدم گھسیٹا ڈولتا اور جھومتا عمرو بن عاص تک پہنچ گیا اور گر پڑا ۔
پانی——– اس آدمی کے منہ سے سسکی نکلی ۔
پانی—– مر جاؤں گا ۔
عمرو بن عاص کے پاس پانی کا مشکیزہ بھرا ہوا تھا ۔
گرمی اتنی کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پیاس لگتی تھی، اور حلق میں کانٹے چبھنے لگتے تھے اس لئے عمرو بن عاص نے پانی کا مشکیزہ اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک دو گھونٹ پانی پی لیتے تھے اس آدمی نے پانی مانگا تو عمرو بن عاص نے مشکیزہ کھولا اور پھر اس کو سہارا دے کر بٹھایا اور مشکیزے کا منہ اس کے منہ کے ساتھ لگا دیا گیا۔
وہ شخص اتنا پیاسا تھا کہ آدھا مشکیزہ پانی پی گیا۔
تم نے مجھے پانی نہیں نئی زندگی دی ہے۔ اس آدمی نے کہا میں حضرت عیسی علیہ السلام کی اس سرزمین کی زیارت کے خاطر پہاڑی پر چڑھ گیا تھا کہ دور دور تک اس علاقے کو دیکھوں گا لیکن میری حماقت کے پانی ساتھ نہ لے گیا۔
یہ تو ایک معجزہ ہے کہ میں تم تک زندہ پہنچ گیا ہوں ،اس شخص نے اپنا نام شماس بتایا اور یہ بھی کہ وہ عیسائی ھے۔
وہ مصر کے بہت بڑے شہر اور بندرگاہ اسکندریہ کا رہنے والا تھا ، اس وقت اسکندریہ مصر کا دارالحکومت تھا اور مصر میں ایرانیوں کی حکومت تھی۔
=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
شماس کو پانی ملا جو اس نے پیٹ بھر کر پیا تو اس کے جسم میں تازگی آگئ ۔
وہ تھکا ہوا بھی تھا اسے گنودگی محسوس ہونے لگی، عمرو بن عاص کا شکریہ ادا کرکے وہ اٹھا اور قریبی ایک درخت کے نیچے لیٹا اور لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی وہ خراٹے لینے لگا۔
عمرو بن عاص اس سے بے خبر ہو گئے اور اپنے اونٹوں کو دیکھنے لگے کہ کوئی اونٹ کی اِدھراُدھر نہ ہوجائے ۔
انہوں نے ویسے ہی اپنا مشکیزہ دیکھا کہ اس پیاسے انسان نے اس میں کوئی قطرہ چھوڑا بھی ہے یا نہیں مشکل سے دوچار گھوٹ پانی رہ گیا تھا۔
عمروبن عاص کو دلی اطمینان محسوس ہورہا تھا کہ انہوں نے ایک پیاسے کی جان بچائی ہے ۔
وہ شخص جس نے اپنا نام شماس بتایا تھا بیت المقدس شہر تک نہ پہنچ سکتا ۔عمرو بن عاص نے سوئے ہوئے شماس کی طرف دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہوگئے ۔
ایک بڑا لمبا سانپ جس کا رنگ سیاہی مائل تھا آہستہ آہستہ سوئے ہوئے شماس کی طرف رینگتا آرہا تھا ۔
گرمی کی شدت میں سانپوں میں زہر بہت ہی تیز ہوجاتا ہے۔
اور فورا ہی اثر کرتا ہے ۔
سانپ اور شماس میں ایک دو قدموں کا ہی فاصلہ رہ گیا تھا۔
عمرو بن عاص کہ اتنی جلدی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے کہ سانپ کو شماس تک پہنچنے سے پہلے مار ڈالتے یا بھگادیتے۔
اس زمانے میں گڈریے اپنے ساتھ تیر اور کمان ضرور ہی رکھا کرتے تھے ۔
تلوار اور برچھی بھی ان کے پاس ہوتی تھی لیکن تیر و کمان کو اس لیے زیادہ ضروری سمجھا جاتا تھا کہ مویشی یا بھیڑ بکریاں چرتی چگتی دور نکل جاتی تھی ۔
کوئی درندہ آ نکلتا تو گڈریے دور سے اسے تیر مار سکتے تھے۔
عمرو بن عاص اونٹ چرانے کے لیے گئے تھے اس لئے تیروکمان بھی ساتھ لے گئے تھے۔ انہوں نے سانپ کو دیکھا تو فوراً کمان میں تیر ڈالا اور سانپ کے سر پر تیر چلایا فاصلہ بہت تھوڑا تھا اس لئے تیر سانپ کے سر میں سے گزر کر زمین میں گڑ پڑا سانپ وہیں لوٹ پوٹ ہوتا رہا اور مر گیا۔
انہوں نے شماس کو جگانا مناسب نہ سمجھا وہ بڑی گہری نیند سویا ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد شماس کی آنکھ کھلی وو اٹھ بیٹھا سب سے پہلے اس کی نظر سانپ پر پڑی اور بودک کر اٹھا اور اس سے دور ہٹ کر اسے دیکھنے لگا ۔
اس نے سانپ کے سر میں گزرا ہوا اور کچھ زمین میں گڑا ہوا تیر دیکھا۔
تو گھوم کر عمرو بن عاص کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر حیرت تھی۔
عمرو بن عاص مسکرا رہے تھے۔
مر گیاہے ۔۔۔۔۔عمر بن عاص نے کہا ۔
اب ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ تمہارے پاس پہنچ گیا تھا میرے تیر نے اسے آگے نہیں آنے دیا۔
شماس آہستہ آہستہ عمروبن عاص کے پاس آ کر بیٹھ گیا وہ انھیں دیکھتا ہی رہا جیسے اس کی زبان بولنے سے عاری ہو گئی ہو ۔
عمرو بن عاص بھی اسے دیکھتے رہے اور منہ سے کچھ بھی نہ بولے۔
تم مجھے انسان نہیں لگتے۔
شماس نے کہا ۔
خدا نے تمہیں میری حفاظت کیلئے آسمان سے اتارا ہے۔
کہیں تم آسمانی مخلوق تو نہیں ہو؟
خدا کی قسم اتنی زیادہ حیرت کی بات تو نہیں تھی عمرو بن عاص نے کہا۔
انسان ہی تو انسان کے کام آیا کرتا ہے۔
میں آسمان سے نہیں اترا مکّہ سے بغرض تجارت آیا ہوں اور میں قبیلہ قریش کا آدمی ہوں۔
میں مصر کے سب سے بڑے شہر اسکندریہ کا رہنے والا ہوں، شماس نے کہا یہ مت سوچ کے میں مصری ہوئی اس لئےتمہارے ملک عرب کے رسم و رواج سے ناواقف ہو نگا۔
میں جانتا ہوں کہ ملک عرب میں ایک انسانی جان کا خون بہا 100 اونٹ ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ 100 اونٹوں کی قیمت ایک ہزار دینار ہوتی ہے کیا میں نے غلط کہا ہے۔
نہیں دوست، عمرو بن عاص نے کہا تم نے غلط نہیں کہا ،عرب میں ایک انسانی جان کی قیمت ایک سو اونٹ ہی ہے، اور یہ قیمت اتنی زیادہ ہے کہ ہر کوئی اتنی قیمت نہیں دے سکتا ،اس لئے کوئی کسی کو قتل نہیں کرتا ،لیکن انسانی جان کی قیمت کا خیال تمہیں کیوں آیا؟
یہ مت پوچھ کے مجھے یہ خیال کیوں آیا ہے۔ شماس نے کہا میں تمہیں اپنے ملک لے چلوں گا خدا کی قسم میں تمہیں دو جانوں کی قیمت دوں گا یہ تمہارا حق ہے جو میں نے ادا نہ کیا تو خدا مجھ سے ناراض ہو گا۔
یہ نبیوں اور پیغمبروں کی مقدس سرزمین ہے، میں ان کی مقدس روحوں کو ناراض کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔
لیکن یہ تو بتاؤ ۔۔۔۔۔عمروبن عاص نے پوچھا۔۔۔۔ وہ کون سے دو انسان ہیں جنہیں تم نے قتل کیا ہے؟
اور میں کون ہوتا ہوں جو خون بہا وصول کروں ۔
عرب کے لوگ اتنے کم عقل تو نہیں ہوتے جتنے تم لگ رہے ہو ۔۔۔شماس نے کہا۔
تم نے دو بار میری جان بچائی ہے، کہ پیاس نے تو میری جان لے ہی لی تھی تم اگر کچھ ہی دیر اور مجھے پانی نہ پیلاتے تو میں مر چکا ہوتا ،پھر تم نے مجھے اس اتنے زیادہ زہریلے سانپ سے بچایا تم تیر چلانے میں ذرا سی بھی کوتاہی کرتے تو سانپ مجھے ڈس لیتا اور میں بیدار ہونے سے پہلے ہی مر چکا ہوتا ،پھر بتا مجھ پر دو جانوں کی قیمت واجب ہوتی ہے یا نہیں؟
عمرو بن عاص بڑے معزز اور برتر خاندان کے فرد تھے انہوں نے شماس سے کہا کہ ان کا اس پر کوئی حق نہیں بنتا انہوں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے۔
میرے عربی دوست۔۔۔ شماس نے کہا تم نہیں جانتے تم نے کس کی جان بچائی ہے خدا نے مجھے اتنی دولت بدی ہے اور ایسا رتبہ دیا ہے کہ میرے دوستانہ تعلقات شاہی خاندان کے ساتھ اور وہاں کے امراء اور حکام کے ساتھ بڑے گہرے ہیں۔
اور ان حلقوں میں مجھے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
میرے پاس یہاں دو ہزار دینار ہوتے تو میں تمہارا حق یہی ادا کر دیتا ۔
میں تمہیں اسکندریہ لے چلوں گا اور تم انکار نہیں کرو گے۔
جہاں تم نے مجھ پر دو احسان کئے ہیں وہاں تیسرا احسان یہ کرو کہ میرے ساتھ چلو۔

#جاری_ہے