تحریر: منورہ نوری خلیق
اب ہے کیا لاکھ بدل چشمِ گریزاں کی طرح
میں ہوں زندہ تیرے ٹوٹے ہوئے پیماں کی طرح
اس دور پرآشوب کا قصہ جب لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، اسے بھی باپ نے موت کی نیند سلانے کے لئے زندہ دفن کرنا چاہا تھا مگر لوحِ تقدیر میں تو کچھ اور ہی لکھا تھا۔۔۔
جوشن شاہ نے اس خبر کو سنا اور دیوانہ وار سنا اور دوڑا چلا آیا۔ اسی بیٹے کے انتظار میں تو اس نے چار بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا تھااور شاید یہ اس کی دھمکی کا ہی نتیجہ تھا کہ اس کی تین بیویوں میں سے کسی کے بھی کوئی اولاد نہیں ہوسکی۔ ہاں، زینب نے بیٹے کو جنم دیا تھا۔
فرخ شاہ! سردار جوشن نے یہ نام رکھا۔ اس وقت اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی، اس نے محبت سے دیکھا اور چاہت سے پکارا۔
“میرا بیٹا فرخ شاہ۔۔۔۔۔۔!”اس نے بڑی ہی محبت سے زینب کو دیکھا اور بولا۔ “زینب۔۔۔۔۔۔! تونے مجھے زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے۔، بول، آج تجھے کیا چاہیے؟”
اس وقت زینب کے رخ پر خوشی ہی خوشی تھی۔
ایسے میں باقی سب بیویوں ہالہ، سودہ اور صفورہ کے رنگ پھیکے پڑ گئے تھے۔ نجانے یہ جلن اور حسد کے جذبات تھے یا ان کو اپنی اپنی محرومیوں کا احساس تھا یا پھر ان چار معصوم بچیوں کا خیال جنہیں صرف اس لئے دفنا دیا گیا تھا کہ وہ بیٹیاں تھیں۔ ان سب کے دلوں میں کسک تھی، دکھ تھا لیکن جوشن شاہ کو کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں میں لئے اس معصوم وجود کو دیکھ رہا تھا جس کا ہلکا پھلکا وجود اسے ایک انجانی سی خوشی بخش رہا تھا، ایک غیر محسوس سی تسکین دے رہا تھا۔ اس کا سینہ خوشی سے پھول گیا۔ اس نے یہاں پر موجود ہر نفس کو نظرانداز کرتے ہوئے زینب سے کہا۔
“زینب۔۔۔۔۔! سرداروں کو بیٹوں کی کتنی ضرورت ہوتی ہے، اس کا اندازہ ایک سردار ہی کرسکتا ہے۔ ایک غریب آدمی کے بیٹا ہو یا نہ ہو، اسے پرواہ نہیں ہوتی لیکن سرداروں کی تمام دولت، جائداد، نام و نسب سب کچھ خطرے میں پڑ جاتا ہے اور ایک بیٹا، صرف ایک بیٹا ان سب چیزوں کو محفوظ کردیتا ہے۔”
اس وقت زینب مسکرا دی، ایک فاتحانہ مسکراہٹ۔ لمحہ بھر میں وہ اس کیفیت کو بھول گئی جو چند ماہ پہلے اس پر سے گزری تھی۔
انسان کی فطرت بھی عجیب ہے کہ تکلیف کو جس شدومد سے محسوس کرتا ہے، خوشیاں مل جانے کے بعد اتنی ہی جلدی اس کو بھلا دیتا ہے پھر نہ دکھ یاد رہتے ہیں نہ دکھوں کو دور کرنے والا۔ زینب بھی انسان تھی، اس بیٹے کی پیدائش سے قبل وہ جس طرح گڑگڑا گڑگڑا کر دعا کرتی تھی، اس قلعے کی تمام عورتوں کے دکھوں کو محسوس کرتی تھی۔ اب ایک بیٹے کو جنم دے کر ان سب گو بھول گئی تھی۔ اب وہ اس سردار کی بیوی تھی جو اس بیٹے کی بدولت اسے سب سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ جوشن شاہ کی بیویوں میں اس کا مقام سب سے اہم تھا۔ وہ ایک سردار کی بیوی اور ایک ہونے والے سردار کی ماں تھی۔ اب اسے کوئی غم نہ تھا۔
وقت تھمتا نہیں، اس کا گزرنا ہی زندگی ہے اور اس کا تھم جانا موت،
جوشن شاہ پورے چشم و خدم کے ساتھ زندہ تھا زندگی اور وقت کے تقاضوں کے مطابق غیر محسوس انداز بدلتے جارہے تھے۔ اس قلعہ نما مکان میں چار بیویاں اور لاتعداد لونڈیاں تھیں، مصاحب اور غلام تھے جو ہمیشہ سے تھے لیکن فرخ شاہ کی پیدائش نے اسے ان سے اگر بے گانہ نہیں تو بے پرواہ ضرور کردیا تھا۔ خاص کر ان بیویوں سے جن کی بڑھتی ہوئی عمر اسے صرف رواداری تک محدود کررہی تھی۔ وہ ان میں ردو بدل کو ضروری نہیں سمجھتا تھا کیونکہ ردوبدل یا کمی و بیشی لونڈیوں کا مقدر تھی۔ چند برس کے ہیرپھیر میں لونڈیاں پرانے خدمتگاروں میں شامل کردی جاتیں جن کے بعد اسے مسلسل نئ کی دریافت ضروری معلوم ہوتی۔ ایسے میں کبھی کبھی پرانے مصاحب دور دراز کی خبریں اس تک لاتے یا وہ خود شکار اور سیر و تفریح کے بہانے سفر پر جاتا تو جستجو و تحقیق کے اس شوق کو تسکین دیتا۔ اس طرح زندگی کے آٹھ سال چپ چاپ گزر گئے۔
اس دن جوشن شاہ اپنے خاص مصاحبوں زمان اور کامدار کے ساتھ مصروف سفر تھا، علاقہ تو اپنا ہی تھا لیکن اس وقت موسم بہت حسین تھا۔ جوشن شاہ کو احساس ہوا، قدرے تاسف سے زمان کو دیکھا جس کی بدولت اس سفر کا آغاز دیر سے ہوا تھا اور بولا۔
“زمان۔۔۔۔۔۔۔۔! تمہاری یہ سستی کی عادت سفر کے دوران بھی قائم و دائم رہتی ہے۔”
زمان نے پوری توجہ سے اسے دیکھا تو وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔
“تمہیں احساس ہونا چاہئے تھا کہ موسم کتنا حسین ہے اور اس کے حساب سے تمہیں آج روانگی میں بھی ذرا عجلت کرنی چاہیے تھی مگر تم ہمیشہ کی طرح نصف دن ضائع کرکے روانہ ہوئے ہو۔”
زمان احترام کے ساتھ ہنسا، اس کا دل چاہا کہ کہہ دے۔
“حضور، آپ کی صبح ہر روز کی طرح نصف دن گزار کر ہوئی۔”
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔📚
پیشکش:
✍🏻عبداللہ عزام۔🌹🌴