جوائنٹ فیملی سسٹم

از قلم تمناظفر

ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو یہ برسوں سے رسم آرہی ہے کہ اکثر لڑکا لڑکی شادی کے بعد الگ نہیں رہتے اگر کوئی رہنا بھی چاہے تو گھر کے باقی افراد اور معاشرہ اس کو الگ رہنے نہیں دیتا- ایک طرف سے ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی جلد اپنے گھر کی ہو جائے مگر کیوں جن خواتین کا سسرال ختم نہیں ہوتا ان کا میکہ بھی کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ جملہ حقوق ان کے پاس کسی گھر کے نہیں ہوتے ۔ میکے میں تو یہ سہولت بھی دستیاب نہیں رہتی ۔ ادھر دلہن رخصت ہوئی ادھر چھوٹی بہنوں نے کمرے پر قبضہ کیا ۔ پھر میکے بھی وہ پرائی امانت کے طور پر جاتی ہے ۔

ایک طویل عرصے کے لیئے عورت اپنے گھر کی سہولت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔ سسرال میں بھی مہمان ۔ میکے میں بھی مہمان ۔ جہاں لڑکی کی عمر 20 سے 25 یا 25 سے 30 فل جوانی میں اگر وہ شادی کر کے جوائنٹ فیملی میں آتی ہے تو اس کو ایک بکری یا گا ئے کی طرح زندگی گزارنی پڑتی ہے- جو بالکل خاموشی سے ہر مسئلے پر سر ہلاتی رہے اگر کسی نے آواز اُٹھائی تو جیسے سسرالیوں کو ایک اچھا سا شکار مل جاتا ہے – پھر چڑھتی جوانی میں جب لڑکیوں کے خوابوں کی اُڑان پرواز بھرنا شروع کرتی ہے عمر کا وہ حصہ جس میں ایک پل بھی گنوانا نہیں چاہتی وہیں جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک قیدی کی طرح جس کو نہ پھانسی نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی خلاصی- کیا یہ سب جائز ہے؟؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ہم انسانوں کو سمجھنے میں ناکام کیسے ہوجاتے ہیں دوسروں کے جائز ارمانوں کا عین اس وقت خون کردیں جب ایک لڑکی کے آنکھوں میں رنگ بھرتے خواب روشن چراغ کی مانند جگمگائے، ان ارمانوں کا خون ایک شوہر نہیں لڑکی کے ماں باپ بھی شامل ہوتے ہیں، معاشرے میں باپ بھائی کی عزت کا سوال ہوتا ہے؟ کیا اسلام یہ کہتا ہے کیا ہمارا دین یہ سکھاتا ہے؟

کسی جوڑے کو 10 سال تو کسی کو 15 مگر جوائنٹ فیملی سسٹم میں ہر صورت رہنا ہے!جہاں مشکلیں ہیں وہاں آسانیاں بھی ہوتی ہیں مگر جوائنٹ فیملی سسٹم میں نوجوان جوڑے کو سمجھوتہ برداشت کے کنوے میں چھلانگ لگانی پڑتی ہے لڑکا اپنی زمہ داری سے بالکل آزاد رہے جاتا ہے کیوں کہ بھرا گھر ہوتا ہے وہ چھوٹے سے چھوٹے کام کی توکل بھی اپنے ماں باپ یا بھائیوں سے لگادیتا ہے یوں ایک لڑکی بھرے گھر میں ہر ایک فرد کی اچھی طرح سے محتاج ہوجاتی ہے جو شوہر کی کسی بھی چیز پہ اپنا حق نہیں جتا سکتی، مانا کہ ماں باپ بہن بھائی کی زمہ داری ہوتی ہے ایک مرد پر، لکن پھر شادی کے بعد اس کے لیے ایک عدد بیوی بھی ہوتی ہے-

جس کو شوہر اگر کوئی درجہ دینا بھی چاہے تو باقی گھر والوں کا رویہ بدل جاتا ہے گھر کا سکون ختم ہوجاتا ہے کیوں جوائنٹ فیملی سسٹم میں یہ تو ہونا ہی ہونا ہے کہ اگر بیوی کو شوہر اپنی گاڑی میں بیٹھا کے کہیں لے گیا تو ماں کا حق! چلو جی ماں کو پہلے فرنٹ سیٹ پہ بٹھاؤ تو ماں جی کی زد کہ میری نواسی بھی لے چلتے ہیں کوئی دوسرا کوئی بھی کم از کم دو سے تین افراد تو ہمارا بھی حق ہے – وہاں پہ کھڑی اس لڑکی کا یہ جرم جو کل اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر بہو بن کر آئی وہاں جوانی کے جذبات اور پھر انتہائی برداشت کا امتحان لڑکی کے ماں باپ کوئی چیز بھیجیں یا شوہر کا دل کیا کچھ لانے کو تو وہ کتنوں کا حق نکالے ہر بھرے گھر میں دو سے تین عدد تو بزرگ ہوتےہیں پھر وہ جوڑا جس کی شادی کو تین سے 5 سال بھی نکل جائیں تو بھی وہ کتنے بزرگوں کا فرض نبھائے یا اس چیز کی شوپر کہاں پھینکی جائے!!

کل کسی کی نظر پڑی تو کہاں سے آئی کس نے دی کتنے سوالات کا جواب دے ایک لڑکی جہاں تک میں نے دیکھا ہے جوائنٹ فیملی سسٹم میں مسئلہ چاہے کوئی بھی ہو دو بھائیوں کے درمیاں یا اپنے ماں باپ اولاد کے درمیاں ایک قصوروار اس عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے جو ناقص عقل ہے پھر عورت آٹے کی چکی کی طرح پیسی جاتی ہے- ساس بہوں کے مسائل تو دو عورت کی درمیاں ہیں یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کو دیکھا جائے تو عموماً گھر کا ہر فرد اس کمپٹیشن میں لگا ہوتا ہے کہ فلاں بڑی بھابھی اچھی ہے یا چھوٹی!!

یا بزرگ اس بات کے پیچھے ہاتھ دہو کر پڑے ہوتے ہیں کہ میری اس بہو کا ہنسنا تو بہت خوب ہے یا تو یہ کہ اس بہو کے کپڑے تو نہایت نفیس ہیں کیا یہ سب جائز ہے ایسے ٹورچر سے اس طرح کے دباؤ سے پھر ایسے مقابلے سے عورتیں نفسیاتی نہیں بنے گی؟؟

مستقبل میں اسی عورت کو بچے اور شوہر کہتے ہیں آپ تو کسی کام کی نہیں آپ کو تو کچھ بھی نہیں آتا آپ نے دنیا نہیں دیکھی ہے پھر اس کو کسی بھی اپنے فیصلے میں اپنی مشکلات میں اپنی زندگی کا حصہ ہی نہیں سمجھتے – جوائنٹ سسٹم میں عرصہ گزارنے سے اسی عورت کو اپنے ماں باپ بہن بھائی بھی اہمیت نہیں دیتے ہر طرح سے وہ ٹوٹ اور بکھر جاتی ہے –

میں جوائنٹ فیملی سسٹم کے خلاف نہیں ہوں ۔ مگر میں سمجھتی ہوں کہ شادی کے فوراً بعد اپنا گھر خاتون کا حق ہے ۔ چاہے وہ ایک کمرہ ایک کچن اور ایک باتھ روم پر ہی مبنی ہو ۔ اسے احساس ہو کہ یہ علاقہ میرا ہے جس میں کسی کا کوئی دخل نہیں ۔

ہمارے ہاں لڑکے ٹائپ کے مردوں کا اپنی بیویوں کو طلاق کی دھمکی دینا گھر چھوڑ کر آجانا اسی جوائنٹ سسٹم کی وجہ سے زیادہ آسان ہے ۔ شادی کے بعد بیوی اپنے شوہر کے لیئے جنسی ضرورت پوری کرنے والی مشین بن کر رہ جاتی ہے ۔ باقی تمام گھر کے کام کرنے کے باوجود شوہر کو علم نہیں ہوتا کہ اس کی بیوی میں اور کتنے گن ہیں ۔ اس کے علم کا ماخذ اس کی ماں اور بہنیں ہوتی ہیں جو اسے بتاتی ہیں کہ تمہاری غیر موجودگی میں تمہاری بیوی کیا کیا گل کھلاتی ہے ۔ لڑکے کو کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس کی بیوی اس کے لیئے کیوں ضروری ہے ۔ کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیا یا یہ کہ روٹی ٹیڑھی بنالی تو جوائنٹ سسٹم میں پورے گھر میں قہقہوں کی آواز گونج اُٹھتی ہے-

اگر شادی کے پہلے ہی دن سے لڑکا اور لڑکی کو الگ کر دیا جائے تو لڑکا طلاق کی یا چھوڑ جانے کی دھمکی دینے سے پہلے سو بار سوچے گا ۔ اسے پتہ ہو گا کہ میرے تمام گھر کے معاملات میری بیوی سنبھالتی ہے ۔ چھوڑ جانے کی صورت میں سارا نظام بگڑے گا ۔ بالفرض طلاق دینے کے بعد بھی جب اگلے دن اسے کھانا خود بنانا پڑے گا تو اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گا ۔ وہ رجوع سے متعلق سوچنے لگے گا ۔ورنہ ماں بہن کے پاس لڑکا یہ کبھی محسوس نہیں کرپائے گا –

جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک سقم اور بھی ہے کہ کچھ لوگوں میں ذمے داری کا احساس ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے-تو کچھ لوگوں میں ضرورت سے انتہائی کم ۔ لڑکے کی شادی ہو گئی اور کماتا کچھ بھی نہیں ۔ باپ کمائی ہے یا بڑے بھیا کی اچھی جاب ہے ۔ یا کسی کی بیوی تیز ہے ہساب میں ہشیار ہے یا تو کوئی اپنی بیوی کی زرا بھی نہیں سنتا ایسے لڑکے بیویوں کے معاملے میں انصاف پر مبنی فیصلہ بھی نہیں کر پاتے ۔ پھر گھر میں سلوک کی کلاسیفکیشن بھی آمدنیوں کے حساب سے ہوتی ہے ۔ بڑا بھائی اچھا کماتا ہے تو اس کی بیوی سے خصوصی طور پر اچھا برتاؤ یا تو یہ کہ کماتا ہے تو ہمارا بیٹا ہے بیوی کے آنے سے اس کے چانس بھی بڑے تو ماں باپ اپنی سورس پہ باقی بھائیوں کے ان کے بچوں کی اسی بیٹے پر زمہ داری بھی ڈال دیتے ہیں یا یہ کہ چھوٹی بہت کچھ جہیز میں لائی یا فلاں بہو کے ماں باپ بہت امیر ہے تو انہیں کی عزت کی جاتی ہے جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھر دیورآنی جٹھانی کے تاؤ کا باؤ کا مسئلہ، چھوٹا بھائی کم کماتا ہے تو اس کی بیوی اس کے بدلے طعنے بھی سنتی ہے اور جو احتجاج کرے تو اسی لڑکے کے ہاتھوں اس کو چھوڑ جانے چلے جانے کی دھمکی ملتی ہے یا جو زیادہ کمائے اس پہ ڈالی گئی زمہ داری اور بیوی کو نظر انداز پہ کچھ بولا بیوی نے تو چھوڑ جانے کی دھمکی! کیا عورت کا گھر ہے اس دنیا میں؟؟

اس کے نام کے آگے ایک نام لگایا جاتا ہے پہلے باپ کا پھر شوہر کا ہمارے معاشرے نے عورت کو استعمال کا سامان بنادیا ہے –
عموماً سمجھا جاتا ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم شائد ہمارے دین کا کوئی حصہ ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ ہماری معاشرتی رسم ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کی خدمت کے حکم کا مقصد یہ ہے کہ لڑکا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہے ۔ ورنہ خدمت ممکن نہیں ۔ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ ماں باپ کی خدمت کا حکم مردوں کے لیئے خاص نہیں بلکہ خواتین کے لیئے بھی ہے ۔ سو منطقی طور پر پھر انہیں بھی ماں باپ کا گھر چھوڑ کر نہیں جانا چاہیئے ۔

میرا ماننا یہ ہے کہ شادی کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں رخصت ہوں ۔ لڑکی اپنے گھر سے اور لڑکا اپنے گھر سے ۔ پھر وہ دونوں مل کر ایک نیا گھر بنائیں ۔ لڑکا صبح کمانے گھر سے نکلے شام کو گھر لوٹے تو خاتون خانہ ساری صفائی ستھرائی کر کے کھانا پکا کر شوہر کا انتظار کرے ۔ دونوں کو اپنی اپنی ذمے داری کا پہلے دن سے احساس ہو ۔ علیحدگی اختیار کرنے کا ارادہ کریں تو دونوں کو پتہ ہو کہ نقصان کتنا ہے ۔

اکا دکا کہیں ایک جگہ اگر کوئی طبقہ طاقت ور ہے لڑکی والے شرائط وضوابط سے رشتہ کرتے ہیں الگ گھر رہنے کی شرط یا زبردستی لڑکے کو منایا جاتا ہے جیسے لڑکی چاہے گی شوہر اس کا ہر حکم مانے گا مگر یہ ہر کسی کے بس کی بات تو نہیں ہے اگر کسی مفلس کے گھر قطار میں دو سے چار لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو اس کی نگاہیں اور کندھے خود بخود جھکے رہنا سیکھ جاتے ہیں بات کرتے ہوئے زبان میں لڑکھڑاہٹ آجاتی ہے چہرے پر دن بدن تفکر کے سائے بڑھنے لگتے ہیں ایسے والدین کی بیٹیاں شرائط رکھے گیں اور کیا سسرالیوں سے الگ رہنے کی خواہش تو وہ سوچ بھی نہیں سکے گیں کبھی جن کو ماں باپ جہیز میں درس دیتے ہیں کہ سمجھوتہ،برداشت اور وقت پاس کرنا ہے جن کو حق مہر میں جوائنٹ سسٹم کا تحفہ دیا جاتا ہے – قصوروار کون معاشرہ یا والدین کی غربت یا وہ عورت وہ لڑکی جو خود چپ چاپ قربانی کا جانور بنتی ہے؟