چین میں ایغور مسلمان کن بھیانک مظالم کا شکار ہیں؟

بیجنگ : آئی سی آئی جے نے چینی حکومت کے ایسے خفیہ دستاویزات کو شائع کیا ہے، جو ثابت کرتے ہیں کہ چین میں ایغور اقلیت کو منظم انداز میں ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بیجنگ حکومت ابھی تک ان دستاویز کو مسترد کرتی آئی ہے۔

انویسٹیگیٹو صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم آئی سی آئی جے ان دستاویزات کی مدد سے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ چین کی جانب سے شورش زدہ علاقے سنکیانگ کی ایغور نسل کے لیے قائم کردہ تربیتی مراکز اصل میں انہیں سخت نگرانی میں مرکزی دھارے سے الگ تھلگ رکھنے کے مراکز ہیں۔

ابھی تک بیجنگ کی جانب سے اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔’آئی سی آئی جے سے قبل نیو یارک ٹائمز بھی سنکیانگ کی ایغور آبادی اور چین کے دیگر علاقوں میں مسلمانوں پر چینی کمیونسٹ جماعت کی جانب سے ہونے والے کریک ڈان سے متعلق دستاویز شائع کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین اور کئی سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے قریب دس لاکھ ایغورمسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔

‘آئی سی آئی جے کے مطابق انہیں 2017 کے کچھ رہنما اصول کی کاپی ملی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حراستی مراکز سے کسی کے بھاگنے کو کیسے روکا جاسکے، ان حراستی مراکز کو کیسے خفیہ رکھا جا سکے اور وہاں جبری پابندی کے شکار افراد کو کب ان کے رشتہ داروں سے ملاقات کی اجازت ہو گی اوریہاں تک کہ وہ کب بیت الخلا استعمال کر سکیں گے۔

دیگر دستاویز سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ چین مصنوعی ذہانت کے ذریعے سنکیانگ صوبے کے شہریوں کے ڈیٹا کو حراستی مراکز میں رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان دستاویز کو ایک ایسے وقت میں شائع کیا گیا ہے جب دنیا بھر میں سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔

امریکا سمیت تیس ممالک نے ایغوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی مذمت کی ہے۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ سنکیانگ میں تربیتی پروگرام فراہم کر رہا ہے جس کے ذریعے وہ اسلامی شدت پسندی اور علیحدگی پسندی کا خاتمہ کر رہا ہے اور سنکیانگ چین کا داخلی معاملہ ہے۔