فاتح سندھ محمد بن قاسم کون تھا

محمدبن قاسم قسط نمبر/1
مرتب؛ محمد ساجد اشرفی
عیسوی 630 ،8ہجری، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تھا آپ حنین اور اوطاس کے مقام پر خونریز معرکہ لڑ کر طائف پہنچے تھے، طائف شہر کو محاصرے میں لینے سے کچھ پہلے خالد بن ولید شدید زخمی ہوگئے تھے، اس قدر شدید زخمی کے ان کے زندہ رہنے کی امید ماند پڑ گئی تھی، خالد زخمی ہو کر گھوڑے سے گرے تھے اور اپنے اور دشمن کے دوڑتے گھوڑے سے خالد کے اوپر سے گذر گئے تھے، خالد زندہ کیسے رہتے!

یہ حق و باطل کا وہ معرکہ تھا جس میں علی ابوبکر عمر اور عباس رضی اللہ تعالی عنہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مجاہدین اسلام کا مقابلہ جس کی قیادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں تھی طائف کے مشہور جنگجو قبیلہ ثقیف اور طائف کے گردونواح میں آباد قبیلہ ہوازن سے تھا، میدان جنگ میں ان دونوں قبیلوں کا سپہ سالار مالک بن عوف تھا، جس کی عمر 30 سال کے لگ بھگ تھی، سپہ سالاری کے لحاظ سے تیس سال عمر لڑکپن کی عمر سمجھی جاتی ہے لیکن مالک بن عوف اتنا ذہین آدمی تھا کہ وہ اسی عمر میں تجربے کار اور منجھا ہوا سپہ سالار بن گیا تھا، اس نے حنین اور اوطاس کے معرکوں میں مسلمانوں کو شکست کے کنارے تک پہنچا دیا تھا، مجاہدین کے لشکر کے ایک دو دستوں نے پسپائی اختیار کر لی تھی۔

خالد بن ولید موت و حیات کی کشمکش میں پڑے تھے جسم خون سے خالی ہو رہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جا کے دیکھا تو آہ نے خالد کے زخموں پر پھونک ماری خالد نے آنکھیں کھولیں پھر اٹھ کھڑے ہوئے زخموں کے باوجود خالد آخر تک اس جنگ میں شریک ہوئے۔

اس جنگ کی اگلی اور آخری کڑی طائف کا محاصرہ تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مجاہدین نے بے جگری سے جوابی حملے کیے تو ثقیف اور ھوازن تاب نہ لاسکے اور پسپا ہوگئے، ان کا مرکز طائف تھا جہاں جاکر وہ قلعہ بند ہو گئے، وہ پسپا تو ہو گئے تھے مگر ان کے حوصلے نہ ٹوٹے، مالک بن عوف نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خوف سے پسپا نہیں ہوا بلکہ وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی کے میدان میں لڑائے گا۔

اٹھارہ روز محاصرہ جاری رہا مسلمانوں نے بڑھ بڑھ کر قلعے پر ہلے بولے اور دشمن کے تیر اندازوں کے تیروں سے زخمی اور شہید ہوتے رہے ،آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء سے مشورہ طلب کیا، ابوبکر اور عمر نے مشورہ پیش کیا کہ محاصرہ اٹھا کر واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے، مگر جوشیلے اور جذباتی مسلمانوں نے اس مشورے کے خلاف احتجاج کیا وہ قلعہ سر کرنے پر تلے ہوئے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک اور حملہ کرنے کی اجازت دے دی مگر مجاہدین آگے بڑھے تو دیواروں کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگی، آگے جانا ناممکن ہوگیا بہت سے مجاہدین زخمی ہوگئے۔

آخر محاصرہ اٹھا لیا گیا۔

مسلمانوں نے ابھی اپنا پڑاؤ وہاں سے سمیٹا نہیں تھا، زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ان میں بیشتر شدید زخمی تھے جو سفر کے قابل نہیں تھے ٹی 20 فروری کے روز محاصرہ اٹھایا گیا اور 26 فروری کے روز مجاہدین کا لشکر جعرانہ پہنچا اور پڑاؤ کیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کو کچھ آرام دینا چاہتے تھے ،شدید زخمیوں کو مرہم پٹی اور مکمل آرام کی ضرورت تھی۔

مسلمان ناکام لوٹ رہے تھے انہیں نہ صرف یہ کہ ناکامی ہوئی تھی بلکہ بہت سے مسلمان شہید ہو گئے، بہت سے ایسے زخمی ہوئے کہ عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے اور زخمیوں کی تعداد تو بے شمار تھی ،طائف کا شہر روز اول کی طرح کھڑا تھا اور شہر پناہ مسلمانوں کا مذاق اڑا رہی تھی۔

پھر ایک معجزہ ہوا مسلمان ابھی جعرانہ کے پڑاؤ میں ہی تھے کہ ان کے دشمن قبیلے ہوازن کے چند ایک سرکردہ آدمی مسلمانوں کے پڑاؤ میں آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی استدعا کی کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا گیا اور چند ایک مجاہدین جنگی تلواریں اور برچھیاں لیے پاس کھڑے رہے کیونکہ ان آدمیوں کا کچھ اعتبار نہ تھا ،غیر مسلم قبائل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنتے ہی رہتے تھے۔

قبیلہ ہوازن پر یہ افتاد آپڑی تھی کہ طائف کے محاصرے سے پہلے ایک لڑائی میں انہیں پسپا ہونا پڑا تھا اور ان کا بہت سا مال اسباب عورتیں اور بچے مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے تھے، اس وقت کے رواج کے مطابق یہ سب مال غنیمت تھا جو ہوازن واپس نہیں لے سکتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ کوئی آدمی جنگ کے بعد اسلام قبول کر لے تو بھی اسے یہ حق دیا جائے گا کہ وہ اپنا مال واپس لے لے۔

اے محمد!،،،،، ہوازن کے اس وفد کے سرکردہ آدمی نے کہا ۔۔۔ہم نے اپنے پورے قبیلے کے ساتھ تجھے اللہ کا بھیجا ہوا رسول مان لیا ہے، ہمارا پورا قبیلہ تیرے مذہب میں داخل ہوچکا ہے ۔

خدا کی قسم ۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔۔۔ تم نے فلاح کی راہ پائی ہے اور یہی صراط مستقیم ہے۔
اے محمد کہ تو اللہ کا رسول ہے ۔۔۔وفد کے قائد نے پوچھا۔۔۔کیا ہمیں ہماری عورتیں اور ہمارے بچے اور ہمارے مال و اموال واپس نہیں کرے گا۔

ہم سے لڑ کر اور ہمارے آدمی قتل اور زخمی کرکے جو تو نے کھویا ہے اس پر تمہارا کوئی حق نہیں۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔۔۔ لیکن میں اس اللہ کے نام پر جسے تم نے وحدہ لاشریک اور معبود مان لیا ہے۔ تمہارا دل نہیں توڑوں گا ۔کیا تمہیں اپنے مال و اموال عزیز ہے یا عورتیں اور بچے؟

ہمیں ہماری عورتیں اور بچے دے دے۔۔۔ وفد نے کہا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیاضی کا مظاہرہ کیا اور حکم دیا کے قبیلہ ہوازن کو ان کی عورتیں اور ان کے بچے واپس کر دیے جائیں، اہل ہوازن کو توقع نہیں تھی کہ ان کی عورتیں اور بچے انہیں مل جائیں گے، اور پورے کا پورا قبیلہ ہوازن مسلمان ہو گیا ۔

اس کے دو تین روز بعد ایک اجنبی مسلمانوں کے پڑاؤ میں داخل ہوا اس نے سر اور چہرے پر جو کپڑے لپیٹ رکھا تھا اس میں سے اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں، اسے روکا گیا تو اس نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتا ہے۔

کیا تو طائف سے نہیں آیا؟،،،، ایک مسلمان نے اس سے پوچھا۔
میں طائف کی طرف سے آیا ہوں ۔۔۔اجنبی نے کہا۔

یہ مسلمان ان چند ایک مجاہدین میں سے تھا جو گدڑیوں اور شتربانوں کے بھیس میں طائف کے اردگرد گھومتے پھرتے رہتے تھے۔

خطرہ تھا کہ طائف سے اہل ثقیف نکل کر مسلمانوں کے پڑاؤ پر بے خبری میں حملہ کردیں ۔
اس مجاہد نے اس آدمی کو طائف کے ایک دروازے سے نکلتے دیکھا پھر اسے مسلمانوں کی خیمہ گاہ کی طرف جاتے دیکھا تو اس کے پیچھے چل پڑا اس کی نظر میں یہ آدمی مشکوک تھا ۔

اور میں نے تجھے طائف کے دروازے سے نکلتے دیکھا ہے ۔۔۔مجاہد نے کہا ۔۔۔خدا کی قسم تو اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

میں جس ارادے سے آیا ہوں وہ میں پورا کرکے ہی جاؤں گا۔۔۔ اجنبی نے کہا ۔۔۔کیا تم مجھے رسول اللہ تک نہیں پہنچاؤ گے؟
لیکن اپنا چہرہ تو کیوں نہیں دیکھاتا ؟
اجنبی نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا۔
خدا کی قسم!،،،، مجاہد نے کہا۔۔۔ تو مالک بن عوف ہے ہم تجھے نہیں روک سکتے ۔ دو تین مجاہدین اس کے ساتھ ہو لئے اور اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے تک پہنچا دیا گیا۔

بن عوف!،،،، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔۔۔ کیا تو صلح کا پیغام لایا ہے یا کسی اور ارادے سے آیا ہے؟
میں تیرے مذہب میں داخل ہونے کے لیے آیا ہوں۔۔۔ مالک بن عوف نے کہا۔
اور طائف کے مشہور و معروف اور جنگجو قبیلہ ثقیف کے سردار مالک بن عوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسلام قبول کر لیا۔

مؤرخ اس معاملے میں خاموش ہیں کہ مالک بن عوف نے اسلام قبول کیوں کیا تھا، اس پر کوئی جبر نہ تھا اس نے تو مسلمانوں کا محاصرہ ناکام کردیا اور انہیں واپس چلے جانے پر مجبور کر دیا تھا ،اسے مسلمان ہونے کی کیا ضرورت تھی ،شاید وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سلوک سے متاثر ہوا تھا جو آپ نے ہوازن کے وفد کے ساتھ کیا تھا۔ بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ثقیف کے سردار مالک بن عوف نے اسلام قبول کر لیا اور وہ کئی جنگوں میں شریک ہوا

=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
طائف شہر آج بھی موجود ہے تاریخ میں اس کی اہمیت اتنی سی ہے کہ آج سے چودہ سو دن پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر کا محاصرہ کیا تھا اور اہل طائف نے ایسی بے جگری سے مقابلہ کیا تھا کہ مسلمانوں کو محاصرہ اٹھا کر واپس آنا پڑا تھا، لیکن اللہ تبارک وتعالی نے چونسٹھ برس بعد اس شہر کو وہ سعادت بخشی کے طائف تاریخ اسلام کا ایک سنگ میل بن گیا، مالک بن عوف کا قبول اسلام اس سعادت کا پیش خیمہ تھا۔

694عیسوی کا واقعہ ہے طائف کی ایک عورت کے بطن میں ایک بچے کے آثار نمودار ہوئے، اس کا خاوند فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا وہ کچھ دنوں کے لیے گھر آیا تو بیوی نے اسے بتایا کہ وہ امید سے ہے۔

میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس سے پریشان ہوں۔۔۔ اس عورت نے اپنے خاوند سے کہا۔۔۔میں دیکھتی ہوں کہ میرا گھر اچانک تاریک ہو گیا ہے، ایسی تاریکی کے اپنا آپ بھی دکھائی نہیں دیتا، دل خوف اور گھبراہٹ سے ڈوب رہا ہے، دل کہتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے، کیا ہوگا پتا نہیں چلتا میں گھر میں اکیلی کسی کو پکارنا چاہتی ہوں تو منہ سے آواز نہیں نکلتی، بھاگ کے باہر جانا چاہتی ہو تو قدم نہیں اٹھتے ،سوچتی ہوں کیا کروں تو کچھ سوچا نہیں جاتا،،،،،،،،

اللہ کو یاد کرتی ہوں آواز تو نہیں نکلتی لیکن دل سے دعا نکلتی ہے، پھر دور اوپر آسمان پر ایک ستارہ نظر آتا ہے جو پہلے تو مدھم تھا پھر روشن ہو جاتا ہے یہی ایک روشنی ہے جو گھپ تاریکی میں نظر آتی ہے، امید کی کرن کی طرح ستارہ روشن ہوتا جاتا ہے اور ستارہ نیچے کو آ رہا ہے، تاریکی کم ہوتی جاتی ہے آخر ستارہ روشنی کے ایک گولے کی شکل میں ہمارے صحن میں اتر آتا ہے، اور روشنی ہمارے سارے گھر میں پھیل جاتی ہے، یہ روشنی زمین کی روشنی نہیں لگتی آسمان کا نور لگتی ہے، دل سے خوف اتر جاتا ہے روح کو سکون ملتا ہے اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

خواب برا تو نہیں۔۔۔۔ اس عورت کے خاوند نے کہا۔
مگر یہ تاریکی کیسی تھی۔۔۔ عورت نے پوچھا۔۔۔ اور کہا۔۔۔ تاریکی یاد آتی ہے تو دل گھبرانے لگتا ہے، کیا تم کسی ایسے عالم کو یا کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتے جو خوابوں کی تعبیر بتا سکتا ہو۔
لوح تقدیر کا لکھا ہوا کوئی مٹا نہیں سکتا۔۔۔ خاوند نے کہا۔۔ تعبیر اچھی نہ ہوئی تو اسے ٹال سکے گی۔
شاید اچھی ہو۔۔۔ بیوی نے کہا۔۔۔ پوچھ تو لو۔
بیوی نے ایسی ضد کی کہ خاوند طائف کے ایک بزرگ اسحاق بن موسی کے پاس گیا اور اپنی بیوی کا خواب بیان کیا ،اسحاق بن موسی علم نجوم اور خوابوں کے تعبیر کے علم کا عالم تھا، اس نے خواب سنا اور اپنے خیال میں کھو گیا اس نے اس آدمی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پھیلایا اور اس کی لکیر غور سے دیکھنے لگا وہ افسردہ سا ہو گیا اور اس نے اس آدمی کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
بولو ابن موسی!،،،،،،ہونے والے کے بچے کے باپ نے کہا۔۔۔ تعبیر بری ہے تو بھی بتادے۔

تعبیر بری نہیں!،،،،،، اسحاق بن موسی نے کہا۔۔۔ تیری بیوی کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا وہ روشن ستارے کی مانند ہوگا جسے ساری دنیا دیکھے گی وہ اللہ کے نور کو دور دور تک پھیلائے گا ،صدیوں بعد آنے والی نسلیں بھی اسے یاد کریں گے اور تجھے لوگ اس کے نام سے پہچانے گے اس کے حکم سے کمان سے نکلے ہوئے تیر بہت دور پہنچیں گے،،،،،اسحاق بن موسی چپ ہو گیا۔

وہ کچھ دیر چپ رہا وہ اس طرح بولتے بولتے چپ ہو گیا جیسے کوئی بات اس نے اپنے دل میں رکھ لی ہو۔
خدا کی قسم ابن اسحاق!،،،،، ہونے والے بچے کے باپ نے کہا ،،،،تیری خاموشی بے معنی نہیں ہے، بری خبر سننے کے لیے بھی تیار ہوں مجھے وسوسوں میں نہ رکھ، تیرے علم نے جو دیکھا ہے وہ بتا دے ۔

پھر سن لے۔۔۔ موسی نے کہا ۔۔۔ستارہ جو تیرے گھر میں آرہا ہے وہ ان ستاروں میں سے ہے جو جلدی ٹوٹ جاتے ہیں اور آسمان کی وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں، مگر اس کا جسم گم ہوگا اس کا نام زندہ رہے گا ،اور اس کے ٹوٹ جانے سے تیرے گھر میں تاریکی نہیں ہوگی، وہ نہیں ہوگا تو بھی لوگ کہیں گے کہ وہ ہے۔

میں اس کی پرورش ایسی کرونگا کہ وہ اسلام کے آسمان کا روشن ستارہ بنے۔۔۔ بچے کے باپ نے کہا۔۔۔
یہ بھی سن لے۔۔۔ اسحاق بن موسی نے کہا۔۔۔ اس کی پرورش تو نہیں کرے گا اس کی ماں کرے گی۔
میں کیوں نہیں کرونگا؟،،،، خواب دیکھنے والی عورت کے خاوند نے پوچھا ۔۔۔میں کہاں چلا جاؤں گا۔
میں جو بتا سکتا تھا بتادیاہے۔۔۔ اسحاق ابن موسی نے کہا۔
یہ آدمی تعبیر سن کر اٹھ آیا اور اپنی بیوی کو تعبیر بتائی، بیوی خوش تو بہت ہوئی لیکن اس خیال سے مغموم ہو گئی کہ جس بیٹے کو وہ جنم دے گی اس بیٹے کی عمر تھوڑی ہو گی۔
=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷

بچے کی پیدائش میں کچھ دن باقی تھے کہ باپ کو جنگ پر بھیج دیا گیا اور وہ دشمن کے ہاتھوں مارا گیا، اسحاق بن موسی کی یہ پیشن گوئی پوری ہوگئی کہ بچے کی پرورش باپ نہیں کرے گا ما کرے گی، بعد میں اسحاق بن موسی نے کہا تھا کہ خواب میں گھر میں جو تاریکی دیکھی گئی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ موت اس گھر کو تاریخ کرے گی ،پھر آسمان سے ایک ستارہ اتر کر اس گھر کو روشن کرے گا۔
باپ کی وفات طائف سے دور ہوئی اس کے چند روز بعد بچّہ پیدا ہوا ،وہ لڑکا تھا ،بچے تو خوبصورت ہی ہوا کرتے ہیں یہ بچہ بھی خوبصورت تھا، لیکن اس کی چوڑی پیشانی اور آنکھوں کو جس نے بھی دیکھا اس نے کہا یہ عام بچوں جیسا نہیں
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷

اس باپ کا نام جو اپنے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا قاسم بن یوسف تھا، بچے کا نام محمد رکھا گیا جو محمد بن قاسم کہلایا، اور جو تاریخ اسلام کا ایک روشن ستارہ بنا۔
قاسم بن یوسف اور حجاج بن یوسف دو بھائی تھے ،اس وقت خلیفہ عبد الملک بن مروان تھا۔ دونوں بھائی بڑے جرات مند اور فن حرب و ضرب کے ماہر تھے، فوج میں دونوں اعلی عہدوں پر فائز تھے، یہ اس دور کا ذکر ہے جب مسلمان آپس میں پھٹ چکے تھے ،بھائی بھائی کا دشمن ہو چکا تھا ،یہاں تک کہ خلافت کے بھی دو حصے ہوگئے تھے، خلافت شام اور مصر تک محدود تھی ،عبداللہ بن زبیر نے عراق اور حجاز میں اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی تھی، اور اس نے اموی خلافت کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھا۔

عبداللہ بن زبیر خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نامور نواسا تھا ۔ اس نے یزید بن امیر معاویہ کی بیعت سے بھی انکار کیا تھا ،اور حجاج اور عراق میں مسلمانوں کو جمع کرکے متوازی حکومت کر لی تھی ، یزید کے بیٹے معاویہ خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا تو بنو امیہ کی باقاعدہ خلافت کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ہی خانوادہ رسول اور خصوصا بنی فاطمہ رضی اللہ عنہ پر ظلم و ستم کے ایک دور کا آغاز ہو گیا ، عبداللہ بن زبیر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بڑی بہن اسماء کے فرزند تھے، ایک پہاڑ کے طرح اس ظلم و ستم کے آگے آ گئے۔

امویوں نے عبداللہ بن زبیر کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے پہلے عراق پر فوج کشی کی اور پھر حجاز مقدس پر حملہ کیا، دونوں حملوں میں اموی فوج کی کمان حجاج بن یوسف کے ہاتھ میں تھی، عبداللہ بن زبیر کو حصار سے نکالنے کے لئے حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پر منجیقوں سے سنگ باری بھی کرائی جس سے بیت اللہ کی عمارت کو نقصان پہنچا ،آخر ایک خونریز معرکے کے بعد عبداللہ بن زبیر نے اپنی جان اپنے مقاصد کے خاطر قربان کردی۔ حجاج بن یوسف جو ظلم و ستم کے مقابلے میں اس دور میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کو بدامنی سے محفوظ رکھنے کے لیے اختلاف رائے رکھنے والوں اور خلافت کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو عبرت ناک سزائیں دیا کرتا تھا، اس نے عبداللہ بن زبیر کو عبرت کی مثال بنانے کے لئے ان کی لاش کی بے حرمتی کی، اور لاش کے سارے جوڑ الگ الگ کرکے ان کے مردہ وجود کو چوراہے پر لٹکا دیا، جو کئی دن تک لٹکا رہا، اور حجاج بن یوسف کے خوف سے لوگوں نے ان کو نہ اتارا۔

عبداللہ کی والدہ اسماء بنت ابوبکر جو اس وقت ضعیف تھی اور نابینا بھی، لاٹھی ٹیکتی ہوئی اس چوراہے پر پہنچیں جہاں ان کے فرزند کی لاش لٹک رہی تھی، انہوں نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے لاش کو ٹٹولا اور پھر عربی کا وہ شعر پڑھا جس کا ترجمہ ہے۔
یہ کون شہسوار ہے جو ابھی تک گھوڑے سے نہیں اترا۔
عبداللہ بن زبیر کے بعد حجاز اموی خلافت کے زیر نگیں آ گیا، اور حجاج بن یوسف کو اس کا گورنر مقرر کیا گیا ،اس کے گورنر بنتے ہی صوبے میں امن و امان قائم ہو گیا ،ادھر عراق میں خارجیوں نے شور بپا کر رکھی تھی خلیفہ نے ان کی سرکوبی کے لیے بھی حجاج کو ہی مامور کیا ایک طویل جنگ کے بعد حجاج کو فتح نصیب ہوئی۔

حجاج کو اس جنگ میں یہ نقصان اٹھانا پڑا کے اس کا عزیز بھائی جو ان جنگوں میں اس کا دست راست بھی تھا خارجیوں کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا ،اور اسے اپنے گھر میں طلوع ہونے والے اس روشن ستارے کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا ،جس نے بعد میں اپنے چچا حجاج کے ظلم و ستم کی داستانوں کو لوگوں کے ذہنوں سے محو کردیا ،اور شجاعت اور دلیری کی ایسی مثال پیش کی کہ بے دین دشمنوں نے اسے پوجنا شروع کردیا ۔
محمد بن قاسم حجاج بن یوسف ثقفی کا بھتیجا اور قاسم بن یوسف کا نور نظر تھا۔
=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=

محمد بن قاسم جب پیدا ہوا تو خوشیوں پر غم کے بادل چھائے ہوئے تھے ،نومولود کا باپ اس خوشی میں شریک نہیں تھا بچے کی ماں اور سب غمگین تھے کہ بچہ یتیم پیدا ہوا تھا۔ حجاج بن یوسف کو اطلاع ملی تو وہ فوراً پہنچا اسے بچہ دکھایا گیا وہ بچے کو ہاتھوں پر اٹھائے اندر گیا۔
اس بچے کا باپ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ لیکن اسے یتیم نہ سمجھنا میں زندہ ہوں سمجھ لے کے اس کا باپ زندہ ہے، تو جانتی ہے قاسم مجھے کتنا پیارا تھا اس نے مجھے تیرا خواب اور اسحاق بن موسی کی پیشن گوئی بتائی تھی، اسے طائف کا نہیں سرزمین عرب کا روشن ستارہ بننا ہے، اپنے آپ کو بیوہ اور بے آسرا نہ سمجھنا ،اس بچے کے دادا کے خون کی قسم جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے میں اس کی تعلیم و تربیت ایسی کرونگا کہ صدیوں بعد آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی یہ زندہ رہے گا ۔

حجاج بن یوسف کے یہ الفاظ رسمی یا جذباتی نہیں تھے اس نے بچے کی تعلیم و تربیت کا شہانہ انتظام کیا تھا، اس کے لئے منتخب اتالیق رکھے تھے ،بچپن سے ہی بچے کو جنگی تربیت دی جانے لگی تھی ،اس کے کھلونے چھوٹی چھوٹی تلواریں اور برچھیاں اور کمانیں تھیں، جو اس کی عمر کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی گئی تربیت میں گھوڑ سواری خاص طور پر شامل تھی۔
بچہ باپ کی جو کمی محسوس کررہا تھا وہ ماں پوری کرتی تھی لیکن وہ اسے اپنے ساتھ چپکاتی نہیں تھی بلکہ پیار پیار میں اسے مرد بناتی تھی ،حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہہ رکھا تھا کہ اپنے بھائی کے بچے کو معمولی سپاہی نہیں بلکہ سالار بنائے گا ،اور سالار بھی ایسا جو صرف فوج کی کمان نہیں کرے گا بلکہ حکومت کرے گا ۔
حجاج بن یوسف غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا اور اپنا حکم منوانے کے لئے ظلم و تشدد پر بھی اتر آتا تھا، یہی اوصاف کی بدولت اسے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے پہلے حجاز کا پھر حجاز، اعراق ،بلوچستان اور مکران کا حاکم اعلیٰ (گورنر) بنا دیا تھا، خلیفہ کو حجاج کے ان اوصاف کا علم ایک واقعے سے ہوا تھا۔

واقعہ یوں ہوا تھا کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان کی فوج میں نظم و نسق کی کمی تھی اس فوج میں خرابی یہ تھی کہ اسے کوچ کے لئے حکم ملتا تو کوچ کی تیاری میں ہی بہت سا وقت ضائع کر دیتی تھی، اسے معلوم تھا کہ اسلامی فوج میں یہ خوبی ہوا کرتی تھی کہ اس کا کوچ ایسا برق رفتار ہوتا تھا کہ دشمن حیران رہ جاتا تھا اور بے خبری میں مارا جاتا تھا، خلیفہ عبدالملک کا وزیر روح بن عنباع تھا۔
روح بن رنباع!،،،،، ایک روز خلیفہ نے وزیر سے کہا۔
کیا میری فوج میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو اس میں نظم و نسق پیدا کرکے اسے چاک و چوبند بنادے۔
ایک آدمی پر میری نظر ہے امیرالمومنین !،،،،روح بن رنباع نے کہا۔
اسے آزما کر دیکھ لیتے ہیں کون ہے وہ ؟
اس کا نام حجاج بن یوسف ہے امیرالمومنین!،، روح بن رنباع نے کہا۔۔۔۔ طائف کے جنگجو خاندان کا فرد ہے وہ فوج میں ہے لیکن اس کا کوئی عہدہ نہیں، دوسروں سے مختلف اور عقل والا معلوم ہوتا ہے ۔
اسے میرے پاس بھیج دو ۔۔۔خلیفہ نے حکم دیا۔

حکم کی تعمیل ہوئی حجاج بن یوسف خلیفہ کے سامنے جا کھڑا ہوا ،ڈیل ڈول اور چہرے سے حجاج نے خلیفہ کو متاثر کر لیا۔
ابن یوسف !،،،،،خلیفہ نے حجاج سے کہا۔۔۔ اگر میرے ایک حکم کی تعمیل کر آسکو تو بہت بڑا عہدہ دوگا۔
حکم امیرالمومنین!،،،،،، حجاج بن یوسف نے کہا۔۔۔۔فوج اس طرح تیار رہے کہ میں گھوڑے پر سوار ہو کر کسی طرف کوچ کے لیے نکلوں تو فوج گھوڑوں پر سوار ہو کر میرے پیچھے چل پڑے، خلیفہ نے کہا مجھے انتظار نہ کرنا پڑے، ہم کوچ سے تھوڑی دیر پہلے تمہیں بتائیں گے۔
اسی روز یا اس سے اگلے روز خلیفہ نے اچانک حجاج کو بلا کر حکم دے دیا کہ اس کی سواری تھوڑی دیر میں نکل رہی ہے، اور فلاں فلاں دستہ گھوڑوں پر سوار ہو کر اس کے ساتھ جائے گا ،وزیر روح بن رنباع بھی اپنے محافظ دستے کے ساتھ میرے ساتھ آئے ،خلیفہ نے کہا۔

یہ غالبا حجاج کا امتحان تھا فوج خیموں میں تھی حجاج بن یوسف مطلوبہ دستوں کے خیموں میں گیا اور اعلان کیا کہ امیرالمومنین کی سواری نکل رہی ہے اور دستے جنگی تیاری میں گھوڑوں پر سوار ہو جائیں ،حجاج نے دیکھا کہ وزیر اپنے خیمے میں موجود ہی نہیں، وہ تین کمانڈر بھی اپنے خیموں میں نہیں تھے، سپاہی گپ شپ لگا رہے تھے بعض کھانا پکا رہے تھے، انہوں نے جیسے اعلان سنا ہی نہ ہو ،حجاج چلاتا رہا تھا۔
اوئے حجاج !،،،،،،ایک سپاہی نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔ کیوں گلا پھاڑ رہے ہو ادھر آؤ کھانا کھا لو۔
حجاج نے کہیں سے ایک ہنٹر لے لیا اور کھانے پر مدعو کرنے والے سپاہی کو ہنٹر مارنے شروع کر دیے، پھر اس نے جس سپاہی کو بیٹھے دیکھا اسے دو تین ہنٹر مارے، وہ کہتا جاتا تھا میں امیرالمومنین کا حکم سنا رہا ہوں۔ اس نے پھر بھی سپاہیوں میں سستی دیکھی تو اس نے دو تین خیموں کو آگ لگادی ان میں ایک خیمہ وزیر کا تھا، کسی نے وزیر کو جہاں کہیں وہ تھا جا کر بتایا کہ اس کا خیمہ جل رہا ہے ۔

مطلوبہ دستے بروقت تیار ہو کر گھوڑوں پر سوار ہو گئے خلیفہ کی سواری نکلی تو سوار دستے اس کی قیادت میں چلنے کو تیار تھے۔ وہ بہت خوش ہوا مگر وزیر روح بن رنباع خلیفہ کے آگے جا کھڑا ہوا۔
امیرالمومنین!،،،،، وزیر نے خلیفہ سے شکایت کی۔۔۔ حجاج بن یوسف نے میرا خیمہ اور دو اور خیمے جلا دیے، اور اس نے تین چار سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں ،اس کا کوئی عہدہ نہیں اور مجھے یقین ہے کہ امیرالمومنین نے اسے حکم نہیں دیا ہوگا ۔
خلیفہ نے حجاج کو بلوایا ۔
کیا یہ صحیح ہے کہ تو نے خیموں کو آگ لگائی ہے۔۔۔ خلیفہ نے پوچھا ۔
امیرالمومنین!،،،، حجاج نے جواب دیا۔۔۔ مجھ غلام کو ایسی جرات نہیں ہو سکتی کہ خیموں کو آگ لگا دوں، میں نے کسی کا خیمہ نہیں جلایا۔
کیا تو نے سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں؟،،،، خلیفہ نے پوچھا۔
نہیں امیرالمومنین !،،،،،حجاج نے جواب دیا۔۔۔ میں نے کسی کو کوڑے نہیں مارے۔
خلیفہ کو جلے ہوئے خیمے دکھائے گئے پھر انہیں ان سپاہیوں کی پیٹھ ننگی کر کے دکھائی گئی جنہیں حجاج نے کوڑے مارے تھے۔
ابن یوسف !،،،،خلیفہ نے حجاج سے پوچھا۔۔۔ تو نے نہیں تو کس نے یہ خیمے جلائے ہیں، کس نے سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں ؟
آپ نے امیرالمؤمنین !،،،،،،حجاج نے کہا۔۔۔ آپ نے جلائے ہیں ،اور کوڑے بھی آپ نے،،،،،،،،، خاموش!،،،،،، خلیفہ نے گرج کر کہا۔۔۔ تو پاگل معلوم ہوتا ہے۔
امیرالمومنین!،،،،، حجاج نے کہا ۔۔۔جو کچھ ہوا آپ کے حکم پر ہوا ،آپ فوج میں تیزی اور مستعدی چاہتے تھے یہی ایک طریقہ تھا جس سے میں آپ کا حکم منوا سکتا تھا ،میرا ہاتھ آپ کا ہاتھ تھا، میرے ہاتھ میں کوڑا آپ کا تھا، میرا خیمے کو جلانے والی آگ آپ کی آگ تھی ،میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔
خدا کی قسم!،،،،، خلیفہ عبدالملک نے پرجوش لہجے میں کہا ۔۔۔مجھے اسی آدمی کی ضرورت تھی۔ خلیفہ نے حجاج بن یوسف کو اعلی عہدہ دے دیا یہ حجاج کے ظلم و تشدد کی ابتدا تھی۔
=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷
یہ تھا حجاج بن یوسف اور یہ تھی اس کی ذہانت اور اس کا کردار ،اور یہ تھا حجاج بن یوسف جس نے اپنے بھائی قاسم بن یوسف کے بیٹے محمد بن قاسم کی تعلیم و تربیت اپنے ذمے لے رکھی تھی اور بچے کو ایک خاص سانچے میں ڈھال رہا تھا۔
705 عیسوی میں خلیفہ عبد الملک بن مروان فوت ہو گیا تو اس کا بڑا بیٹا ولید بن عبدالملک مسند خلافت پر بیٹھا، وہ اپنے باپ جیسا ذہین اور مدبر نہیں تھا، یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ اس کے باپ نے بغاوتوں اور سرکشی کو دبا دیا تھا، خارجیوں کا گلا بھی گھونٹ دیا گیا تھا، اس کے علاوہ فوج میں قتیبہ بن مسلم، موسیٰ بن نصیر ،اور مسلم بن عبدالملک جیسے نڈر اور منجھے ہوئے سالار موجود تھے۔
نئے خلیفہ کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ اسے حجاج بن یوسف جیسا جابر اور دانشمند مشیر حاصل تھا، جو بہترین منظم اور تجربے کار سالار بھی تھا ،اور وہ تمام تر مشرقی علاقوں کا گورنر تھا ،حجاج نے خلیفہ ولید بن عبدالملک کی کمزوریوں کو بھانپ لیا تھا، اس نے خلیفہ کی کمزور رگوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس پر چھا گیا۔
ایک بار حجاج طائف گیا وہ ایک عرصے بعد طائف گیا تھا، محمد بن قاسم کی ماں کو اطلاع ملی تو وہ حجاج سے ملنے اس کے گھر گئی۔
تو خود ہی کیوں چلی آئی ہے۔۔۔ حجاج نے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو دیکھ کر کہا۔۔۔ کیا تو یہ سمجھتی تھی کہ میں تیرے گھر نہیں آؤں گا، اور تجھ سے نہیں کہوں گا کہ میرے بھائی کی امانت مجھے دکھا، کہاں ہے محمد میں نے اسے دیکھنے خود آنا تھا۔
اللہ میرے بھائی کو اپنی رحمت میں رکھے۔۔۔ محمد بن قاسم کی ماں نے کہا ۔۔۔میں نے اسے نیا گھوڑا لے دیا ہے پہلے وہ بھلے مانس سے گھوڑے کی سواری کرتا رہا ہے ،اب جو گھوڑا اسے لے دیا ہے کوئی شہسوار ہی اس پر سواری کر سکتا ہے ،محمد جوان ہو گیا ہے اسے اب جنگی گھوڑے کی سواری کرنی چاہیے ،وہ گھوڑا لے کے نکل گیا ہے، اللہ کرے گھوڑا اس کے قابو میں رہے، بڑا زبردست گھوڑا ہے۔
اللہ کرے وہ گرے ۔۔۔حجاج نے کہا ۔۔۔اسے گر کر اٹھنے کی تربیت ملنی چاہیے، شہسوار گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں گھوڑے کے قدموں تلے آکر بنا کرتے ہیں، اور میری بہن وہ گر کر واپس آیا تو اسے سینے سے نہ لگانا اس کا خون بہ رہا ہو تو اپنی اوڑھنی پھاڑ کر اس کے زخموں پر نہ باندھنا، اس پر ممتا کا تاثر طاری نہ کر دینا ،اسے اپنا خون دیکھنے دینا اور اسے بتانا کے یہ خون کس کا ہے ،میں تیرے گھر آ رہا ہوں۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷
کچھ دیر بعد حجاج بن یوسف ادھر جا رہا تھا محمد بن قاسم کی ماں کو اطلاع ملی تو وہ اس کے استقبال کے لیے باہر آگئی۔
حجاج اس کے مرحوم خاوند کا بڑا بھائی ہی نہ تھا بلکہ آدھی سلطنت کا حاکم اعلیٰ تھا، وہ محمد بن قاسم کے شاہانہ مکان میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ اسے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دیے اس نے ادھر دیکھا ایک سوار گھوڑا دوڑاتا آ رہا تھا، حجاج اسے دیکھنے کو رک گیا ،محمد بن قاسم کی ماں اس کے پاس کھڑی تھی۔

سوار ان کے قریب سے گزر گیا اس نے گھوڑے کی رفتار کم نہ کی اس نے حجاج کی طرف دیکھا ہی نہیں ،حجاج کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار آگئے ،صاف پتہ چلتا تھا کہ سوار کے اس طرح قریب سے گزر جانے کو اس نے بدتہذیبی سمجھا تھا ،وہ قبیلہ ثقیف کا سرکردہ فرد تھا طائف کے لوگ اس کی بہت عزت کرتے تھے۔
معلوم ہوتا ہے میرے قبیلے کے بیٹے مجھے بھول گئے ہیں۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ یہ لڑکا مجھے مرغوب کرنے کے لئے میرے پاس سے گزر گیا ہے، تم جانتی ہو گی یہ کس کا بیٹا ہے۔
اپنا ہی بیٹا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم کی ماں نے کہا۔۔۔ محمد ہے۔
نہیں!،،،، حجاج نے حیرت سے کہا ۔۔۔ہمارا بیٹا اتنا بڑا نہیں ہو سکتا محمد کو تو میں چھوٹا سا چھوڑ کر گیا تھا۔
کچھ دور جاکر محمد بن قاسم نے گوڑا موڑا اور واپس اسی رفتار سے آیا گھوڑا اتنا تیز تھا کہ اس نے اب پھر آگے نکل جانا تھا ،لیکن حجاج اور اپنی ماں کے قریب آکر محمد بن قاسم نے گھوڑا روک لیا ،وہ گھوڑے سے کودا اور حجاج کی طرف دوڑا، حجاج نے اسے گلے لگا لیا۔
گھوڑا اچھا ہے۔۔۔ حجاج بن یوسف نے کہا۔۔۔ اور سوار اس سے زیادہ اچھا ہے۔
میں نے آپ کو دکھانے کے لئے پہلے گھوڑا نہیں روکا تھا۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
خدا کی قسم !،،،،،حجاج نے کہا۔۔۔ میں نے تمہیں پہچانا ہی نہیں تھا ۔
وہ اندر چلے گئے۔
اب تیرا بیٹا جوان ہو گیا ہے۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ اسے میں اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔
محمد بن قاسم کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ،محمد بن قاسم کی عمر ابھی سولہ سال نہیں ہوئی تھی، ماں کی نظروں میں وہ ابھی بچہ تھا، لیکن ذہن اور جسم کے لحاظ سے وہ جوان ہو گیا تھا ۔
عزیز بہن!،،،،، حجاج نے کہا تجھے یہ امانت قوم کے حوالے کرنی ہی پڑے گی، محمد تیرا نہیں اسلام کا بیٹا ہے ،اسے اپنے باپ کی نبیل لینی ہے، اسے اور زیادہ اوپر اٹھنا ہے، اسے عالم اسلام کا چمکتا ہوا ستارہ بننا ہے۔
میں بھی ایسے ہی خواب دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ماں نے کہا۔۔۔ میں نے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کررکھا ہے جس روز میرا لخت جگر مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے گا۔
میں اسے اپنے ساتھ بصرہ لے جاؤں گا اس کی عسکری تربیت اور دوسری تعلیم مکمل ہو چکی ہے، اسے اب عملی زندگی میں ڈالنا ہے اور اسے امراء کی محفلوں میں لے جانا ہے، اور اسے جنگی مشقوں میں شامل کرنا ہے۔
حجاج کا صدر مقام بصرہ تھا، اس کا مکان ایک محل تھا اور یہ بادشاہوں کے محلات جیسا تھا ۔ حجاج کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام لبنیٰ تھا، حجاج جب چائف گیا تو لبنیٰ بصرہ میں رہی، وہ کمسن تھی رات کو اس کے کمرے کی ایک بند کھڑکی پر باہر سے ہلکی سی دستک ہوئی، لوبنا اس دستک کے انتظار میں تھی، وہ سو گئی تھی لیکن اس ہلکی سی دستک پر بھی اس کی آنکھ کھل گئی۔
اس نے کھڑکی کھولی اور باہر کو جھکی اس نے کھڑکی میں سے نکلنے کے لئے پاؤں کھڑکی میں رکھے باہر سے دو مردانہ ہاتھ آگے بڑھے، لبنیٰ نے اپنے حسین جسم کا بوجھ ان ہاتھوں پر ڈال دیا اور ان ہاتھوں نے اسے اٹھا کر باہر کھڑا کردیا ،پھر ان ہاتھوں نے اسے سمیٹ کر بازوؤں میں جکڑ لیا ۔
یہاں سے چلے چلو۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔دروازہ اندر سے بند ہے،،،،،،،کھڑکی بند کر دو سلیمان !
سلیمان نے کھڑکی کے کواڑ بند کردیئے اور دونوں محل کے باغ میں چلے گئے سلیمان اس وقت کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کا چھوٹا بھائی تھا اس کی عمر سولہ سترہ سال تھی، لبنیٰ کی عمر بھی اتنی ہی تھی دونوں ایک ہی مدرسے میں پڑھتے رہے تھے، بچپن میں ہی لبنیٰ سلیمان کے دل میں گھر کرگئی تھی۔ جوانی میں داخل ہوتے تو اس کی ملاقاتوں پر پابندی عائد ہوگئی ،دونوں شاہی خاندان کے تھے، انھیں ایسا کوئی ڈر نہ تھا کہ وہ بد نام ہو جائیں گے، روایت ایسی تھیں جو انہیں کھلے بندوں ملنے سے روکتی تھی ،اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لبنیٰ اپنے باپ حجاج سے ڈرتی تھی، وہ طبیعت کا بہت سخت۔
ہم اس طرح کب تک ملتے رہیں گے قمر!،،،،، سلیمان نے لبنیٰ سے کہا۔۔۔ وہ لبنیٰ کو پیار سے قمر کہاکرتاتھا ۔۔۔میں بھائی سے کہہ دو کہ ہماری شادی کرادے۔

تمہارے بھائی تو شاید مان لیں گے ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میرے ابا مانیں گے یا نہیں۔
کیا وہ امیر المومنین کے بھائی کو اپنی بیٹی دینے سے انکار کر دیں گے۔۔۔ سلیمان نے پوچھا ۔
کیا تم انہیں جانتے نہیں۔۔۔ لبنیٰ نے کہا ۔۔۔وہ اپنے فیصلے خود کیا کرتے ہیں ، انہوں نے خلیفہ کا رعب کبھی قبول نہیں کیا۔
اگر انہوں نے تمہارے لئے کوئی اور آدمی منتخب کرلیا تو کیا کروں گی؟
اس کے حکم کی تعمیل کروں گی۔۔۔ لبنیٰ نے کہا ۔
کیا تمہیں افسوس نہیں ہوگا کہ تم امیرالمومنین کے بھائی کی بیوی نہ بن سکی۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔۔ تم جو فخر میری بیوی بن کر کر سکو گی وہ کسی اور سے نہیں حاصل ہوگا ۔
سلیمان !،،،،،،لبنان نے کہا۔۔۔ ہم بچپن میں ایک دوسرے کو چاہتے تھے اس وقت تم امیرالمومنین کے بیٹے تھے لیکن میں نے تمہیں اس لئے نہیں چاہا تھا کہ تم شہزادے ہو، تم میرے دل کو اچھے لگے تھے اگر تم گڈرئیے کے بیٹے ہوئے تو بھی میں تمہیں شہزادہ سمجھتی، اس وقت تم نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ میں کس کی بیٹی ہوں ۔
یہ تو میں آج بھی نہیں سوچ رہا کہ تم حاکم اعلیٰ کی بیٹی ہو۔۔۔سلیمان نے کہا۔
لیکن تم یہ ضرور سوچ رہے ہوں کہ تم امیر المومنین کے بھائی ہو ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اور تمہاری اس حیثیت کی وجہ سے مجھے تم پر فخر کرنا چاہیے، یہ سن لو سلیمان میں اس آدمی پر فخر کرو گی جس کے دل میں میری محبت ہوگی، اور جو یہ نہیں دیکھے گا کہ اس کے باپ کا رتبہ کیا ہے ،اور میں کس باپ کی بیٹی ہوں۔

آج تم کیسی باتیں کر رہی ہو میری قمر۔۔۔ سلیمان نے اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر کہا ۔۔۔اتنی پیاری رات،،،،،،،
میں تم سے بھاگ نہیں رہی سلیمان!،،،، لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اگر مجھے تم سے محبت نہ ہو تو اس طرح رات کو باہر نہ آ جایا کرو جس طرح آتی ہوں، کمرے کا دروازہ اندر سے بند ہے اور میں کھڑکی سے باہر نکل آتی ہوں، میں تمہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اب بچی نہیں رہی ،اور،،،،، اور سلیمان میں شاید بیان نہیں کر سکتی کہ میں کیا محسوس کررہی ہوں۔ مجھے بیوی بننا ہے اور تم جانتے ہو ہماری روایت کیا ہے۔
ہماری روایت یہ ہے کہ محبت ہو تو ہم شادی کر لیتے ہیں۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔ اور جو خلیفہ ہوتا ہے وہ ایک سے زیادہ بیویاں،،،،،
میں ان روایات کی بات نہیں کر رہی۔۔۔ لبنیٰ نے کہا۔۔۔ میں اسلام کی عسکری روایت کی بات کر رہی ہوں ،میں ان مجاہدین کی روایت کی بات کر رہی ہوں جنہوں نے فارس اور روم جیسی جنگی قوتوں کو ریزہ ریزہ کرکے سلطنت اسلامیہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ،اب دیکھ لو ہم آپس میں پھٹ گئے ہیں، کہیں بغاوت ہوئی کہیں یورش ہوتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومیوں کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے ،کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے رومیوں کے ساتھ دوستی کا جو معاہدہ کیا ہے وہ کتنی کثیر رقم دے کر کیا ہے، ہم نے نقد قیمت ادا کر کے اپنے دشمن سے امن خریدا ہے ،ہم نے دراصل یہ معاہدہ کر کے دشمن پر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ اپنی زمین کے اور اپنے دین کے دفاع کے قابل نہیں رہے۔

اوہ میری قمر!،،،،،، سلیمان نے بے تاب ہو کر کہا۔۔۔ تم اس رومان پُررات کا اور میرے ارمان کا خون کر رہی ہو، تم جو اس چاندنی سے زیادہ حسین ہوں ایسی روکھی پھیکی اور بے مزہ باتیں کر کے اپنے حسن اور میری محبت پر کالی گھٹا کے سائے ڈال رہی ہو، تم کیا سمجھتی ہو کہ جو باتیں تم نے کہی ہے وہ مجھے معلوم نہیں، اور کیا تم نہیں جانتیں کہ اپنے بھائی کی وفات کے بعد میں نے مسند خلافت پر بیٹھنا ہے ۔

میں جا رہی ہو ۔۔۔لبنیٰ اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی مجھے اب جانا چاہیے ماں کو پتہ چل گیا تو،،،،،
وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہے۔۔۔ سلیمان نے کہا ۔۔۔۔کیا ہو گیا تجھے قمر تو نے پہلے کبھی ایسے نہیں کیا تھا۔
وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ،لبنیٰ چل پڑی سلیمان اس کے پیچھے آیا ۔
کیا تم میری محبت کو ٹھوکرا کر جا رہی ہو؟
سلیمان نے پوچھا۔
نہیں سلیمان !،،،،،لبنیٰ نے روک کر کہا۔۔۔ میں نے تمہاری محبت کو نہیں ٹھکرایا، تم نے شادی کی بات کی ہے مجھے کچھ سوچنے دو،،،،، کچھ سوچنے دو سلیمان!،،،، وہ اپنے کمرے کی کھڑکی تک آئی اور کھڑکی کھول کر کمرے میں چلی گئی۔

جاری …