ناصر اقبال عباسی
عوام نے ہمیشہ ریاست سے انصاف کی امید رکھی ہے اور جب ریاست ہی ظلم کے پہاڑ گرا دے اور ریاستی محافظ درندوں کا روپ دھار لیں تو معاشرے بگاڑ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔سانحہ ساہیوال رونما ہوئے تین ہفتے گزر گئے لیکن سانحہ ساہیوال پر کوئی انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا ۔متاثرین سانحہ ساہیوال اب تک” حصول انصاف“ کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیںاور ان کا پرسان حال کوئی نہیں،ان کی کہیں بھی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ،انصاف کی علمبردار حکومت ان نصیبوں مارے افراد کو اب تک انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے، ہر طرف مایوسی ،ناامیدی کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں اور انصاف کی کرن ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی،وزیر اعلی ٰ ویسے ہی کسی کام کے نہیں ،دوسروں کے بتانے سے بولتے اور ہج مارنے سے ہلتے، وزیر اعظم ویسے ہی سیر سپاٹوں پرپائے جائے جاتے ہیں،انہیں عوام کا درد اتنا ستاتاہے کہ انہیں بیرونی دوروں سے ہی فرصت نہیں۔ بیچ سڑک مارے جانے والے افراد کے گھر والوں اورانصاف کے لیے کبھی ادھرکبھی ادھر چکر کاٹتی،دھکے کھاتی معذور اوربے بس ماں کی آنکھوں سے آنسو پونجھنے والا کوئی نہیں، انصاف عوام کی دہلیز پر پہنچانے والا کوئی نہیں۔ ظلم بہت زیادہ اور انصاف نہ ہونے کے برابر،معصوم روتے بلکتے بچوں اور سسکیاں اور آہیں بھرتے ورثاءاور انصاف کی دہائیاں دیتی مجبور ومقہور ماں کے درد کا سامان کرنے والا کوئی نہیں،اپنے مفادات کے لیے حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادینے والے بہت سارے …مگر مظلوموں کی آواز بننے والا کوئی نہیں…افسوس یہ کیسا ملک ہے ،جہاں ظلم تو بہت زیادہ ہے مگر انصاف ناپید…یہ کیسا دیس ہے جہاں غریب کے خون کی کوئی قیمت نہیں،خون غریباں اس وطن میں اتنا ارزاں کیوں؟سیکیورٹی ایجنسیاںمیرے ملک کی محافظ،میرے دیس کی شان ،ویسے ہی اس کیس سے اکتاہی ہوئی ہیں،اس پر مٹی ڈالنے کی خواہشمند،اور وزراءاگلے دور کی تیاری میں سارے معاملے پر پانی ڈالے ہوئے ،ایک تہہ شدہ منصوبے کے تحت،جس میں حکومت وقت جو کہ ”مجھے دھکا کس نے دیا“ اقتدار پر ا ٓن وارد،اب اپنے اقتدار کو طول دینے کی خواہش کے پیش نظر کچھ کہہ بھی نہیں سکتے،چپ رہ بھی نہیں پاتے،والی کیفیات سے گزر رہی ہے۔اس کیس کی پیچیدگی ایک طرف اسے پریشان کیے ہوئے تو دوسری جانب سیکیورٹی اداروں کا پریشر جان کھائے ہوئے ہیں،سیاست کے اکھاڑے میں بے عزت ہونے سے بھی ہراساں اور سیکیورٹی ایجنسیاں پیچھے سے ان پرسے اپنا دست شفقت نہ اٹھالیں،کا بھی دل کو دھڑکا،جائے تو جائے کدھر،عجیب مخمصے کا شکار ،اسی الجھن میں الجھی آئیاں توائیاں مار رہی ہے، مجبوریوں اور مصلحتوں کا شکار ہوئی پڑی ہے،نہ تو عوام کی قہرناکیوں کا سامنا کررہی ہے اور نہ ہی سیکیورٹی اداروں کے حکم کی حکم عدولی،کیا کرے ،کیا نہ کرے،انہی الجھنوں میں اب تک الجھی بذات خود ،ایک الجھن بن چکی ہے،اس مسئلے کا قابل قبول حل بھی چاہتی ہے،جس سے عوام بھی مطمن ہوجائے اور سیکیورٹی اداروں کا بھی بھرم رہ جائے،جنھوں نے بڑے واضح لفظوں میں ،پس پردہ پیغام دیا ہے اور وہ پیغام کیا ہے ،اہل عقل ودانش خوب سمجھتے ہیں،ایسے میں حکومت دو محاذوں پر بری طرح پھنسی ہوئی ہے،ایک عوامی محاذ اور دوسرا اداراتی محاذ،ایک طرف سے اگر ،اسے پسپائی ہوتی ہے تو آن جاتی ہے اور دوسری طرف سے ہار ہوتی ہے تو جان جاتی ہے،مشکلات سے دوچار سمجھ نہیں پارہی کہ کس جانب جائے،آخر’حادثہ ساہیوال پر’ مثالی“ فیصلہ لانے کے ساتھ ساتھ اپنی بقاءکے مسئلہ سے بھی تو دوچار ہے،اپنی کم عقلی،نا سمجھی،معاملے کو احسن انداز سے،انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق حل کرنے سے قاصر یامجبوریوں،مصلحتوں کا شکار ہوئے کترا رہی ہے،سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان کا رول اداکررہی ہے کہ فقظ، اک ان کی خوشی کے لیے،تحریک انصاف کے جھنڈے تلے، انصاف کا خون کیے،مجبوریوں ،مصلحتوں کی رو میں بہے ،ملک عزیز میں ریاست مدینہ کے قیام کی دعویدار،تبدیلی کا نشان، موجودہ حکومت بے بسی،لاچارگی کی تصویر بنے مصلحتوںکی چادر اوڑھے مجبوریوں میں جکڑی قید کھڑی ہے،نہ درست سمت کا تعین،نہ کوئی منزل،نہ کوئی ٹھکانہ ،”جھلا“پتا نہیں ،کی لبدا پھرے ، کی صورتحال پیدا کیے مخالفین کے درمیان ایک بھوت پریت کی طرح ادھر ادھر بھٹک رہی ہے اور کچھ کر بھی نہیں رہی اور کچھ کر بھی نہیں سکتی،اہلیت و صلاحیت سے عاری ،نااہل ،ناتجربہ کار ، انصاف کے بڑے دعوے کرنی والی ،وقت آیا تو اپنے دور حکومت میں سرعام ،بیچ سڑک ،سینکڑوں لوگوں کے سامنے سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ظلم کا نشانہ بننے والی ایک بے گناہ ،مظلوم فیملیزکو انصاف بھی فراہم نہ کرسکی۔تحریک انصاف کے جھندے تلے بھی اگر انصاف کا قتل عام ہوا تو یہ حکومت بھی ن لیگ کے سانحہ ماڈل ٹاون کے قتل عام کی طرح نہیں بچ پائے گی
