دبئی(العربیہ ڈاٹ نیٹ)نیویارک میں قائم کارپورٹ تحقیقات کرنے والی ایک فرم کرال نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس سے متعلق عام طور پر استعمال کیے جانے والے شواہد کو چیلنج کیا ہے او ر ان پر اپنے اعتراضات وارد کیے ہیں۔
سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے کرال کو جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق شواہد کے جائزے کے لیے مقرر کیا تھا اور ا س نے اپنی تحقیقات کے بعد رپورٹ پیش کردی ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق کرال کی رپورٹ میں امریکی سی آئی اے کے واقعے کے جائزے کے اہم عنصر کو چیلنج کیا گیا ہے۔
سی آئی اے کے اس مزعومہ جائزے میں یہ کہا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں 2 اکتوبر کو جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔
سی اے آئی نے مبینہ طور پر اپنے اس دعوے کے حق میں سعودی ولی عہد اور سعودی عرب کے ایک سابق مشیر سعود القحطانی کے درمیان 2 اکتوبر کو وٹس اپ پر 11 پیغامات کو ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا۔سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہاسپل نے امریکی سینیٹروں کو دسمبر 2018ء میں ان شواہد کے بارے میں بریف بھی کیا تھا۔اس کے بعد لنڈزے گراہم اور رچرڈ شیلبی سمیت متعدد سینٹروں نے بیانات جاری کیے تھے۔
تاہم سی آئی اے نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ اس کے پاس ایسا کوئی براہ راست ثبوت نہیں جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔
نیویارک شہر میں قائم تحقیقاتی فرم نے بھی اپنی تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت کردی ہے کہ سعودی ولی عہد اور سعود القحطانی کے مابین وٹس اپ پر 2 اکتوبر کو جن پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا ،ان میں جمال خاشقجی یا ان کے قتل کا سرے سے ذکر ہی نہیں تھا۔
کرال کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کو وٹس اپ پیغامات میں کسی قسم کی ترمیم وتبدیلی کا بھی کوئی اشارہ نہیں ملا ہے بلکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس روز شہزادہ محمد بن سلمان کے سعود القحطانی کے نام 11 پیغامات عام موضوعات کے بارے میں تھے۔ان میں ایک ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز سے فون پر گفتگو ، ایک تقریر کے ترجمے او ر شمسی توانائی کے بارے میں ایک پریس ریلیز سے متعلق تھا۔
ایک سعودی ذریعے کا کہنا ہے کہ ’’ بظاہر یہ لگتا ہے کہ سی آئی اے کے پاس اس بات کا تو ثبوت تھا کہ برقی مراسلت ہوئی ہے لیکن اس کے پاس اس مراسلت کے مواد کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی‘‘۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’ اگر سعودی ولی عہد جمال خاشقجی کے قتل کے روز اپنے ایک مشیر سے رابطے میں تھے تو اس سے کوئی بھی چیز ثابت تو نہیں ہوجاتی ہے‘‘۔