”انصاف کا ڈرامہ ۔۔۔کمزور نشانہ “

آقا کائنات جناب محمدﷺ کا فرمان کریم ہے کہ وہ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے جس میں قانون امیر کے لیے کچھ اور ہوتاہو اور غریب کے لیے کچھ اور ہوتا ہو۔اس وقت تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ ہم ایک آزاد اسلامی ریاست میں رہتے ہیں معذرت کے ساتھ کہ مجھے نہ توکبھی آزادی محسوس ہوئی ہے اور نہ ہی اس ریاست میں اسلام نظر آیا ہے ہمیشہ کی طرح ہرزمانے میں ”حق “طاقت کا نام تھااور ہے اس لیے ہرطاقتور ہرقسم کے حقوق کا مالک تھا اور ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔وطن عزیز پاکستان میں ایک غریب اور مظلوم کے حقوق ایک جانور سے بھی کم ہیں ۔ غریب کل تک ہندﺅوں ،فرنگیوں کے غلام تھے اور آج ان سرمایہ داروں،وڈیروں،جاگیرداروں کے غلام ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ اس غلامی سے آزادی کبھی مل بھی نہیںسکتی اس کی وجہ کہ غریب کبھی آزادی کی لذت آشنا ہی نہیں ہوا ،ورنہ یہ چند خاندان ستر سالوں سے مسلسل غریبوں کا استحصال نہ کرتے ۔اس پاکستان میں سارے حقوق کا مالک طاقتور ہے یہاں ملک لوٹنے والوں کو لیڈر اور محسن ماناجاتاہے اور انکی حفاظت کو ریاست کی سب سے بڑی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ چوروں ،راہزنوں کو پروٹوکول دیا جاتا اور روٹی کے چوروں کو پھانسی پر لٹکادیا جاتا ہے ۔یہ ہے میرا آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان؟اس کے حصول کے لیے ہزاروں قربانیاں دینی پڑیں ؟جس ملک میں تین سال کی بچی سے لیکر ستر سال کی عورت کی عزت محفوظ نہ ہو ،جس ملک میں اسلام کا نام لینے والوں کو متشدد سمجھا جاتا ہو ،جس ملک میں ایک ڈاکٹر اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایک مریض کو ہزاروں روپے کے ٹیسٹ لکھ کر دیتا ہو ،جس ملک میں ملاں کے فتوﺅں میں روز شریعت کا کاروبار ہوتا ہو،جس ملک میں ایک حافظ قرآن مسجد کے اندر معصوم بچے کے ساتھ بدفعلی کرکے قتل کردیتا ہو ،جس ملک میں ایک طوائف کا کوٹھا مسجد سے زیادہ قابل تعظیم سمجھا جاتا ہو،جس ملک میں فحش گانوں کو ثقافت اور اذان کی آواز کو باعث اذیت سمجھا جاتا ہو ،جس ملک میں ایک عورت کو اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے اپنی عصمت فروخت کرنی پڑے ،جس ملک میں نبی رحمت کے فرامین کو تنگ نظری سمجھا جاتا ہو اور شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا جاتا ہو،جس ملک میں سرعام توہین صحابہ اکرام ؓ کی جاتی ہو ،جس ملک میں قبرستانوںمیں مردہ خواتین تک محفوظ نہ ہوں،جس ملک میں قاضی قلم بکتا ہو،جس ملک میں امیروں کے کتے لینڈکروزروں میں گھومتے ہوں اور غریب کے بچے سٹرکوں اور فٹ پاتھوں پر افلاس کے ہاتھوں لقمہ اجل بننے پر مجبور ہوں ،جس ملک میں غریب اسپتالوں کے فرشوں پر ایڑھیاں رگڑ رگڑ اپنی جان دے دیتے ہوں ،جس ملک میں قوم کا راہبر قوم کا راہزن ہو۔کیا ایسا ملک اسلامی اور جمہوریہ ریاست ہو سکتی ہے؟ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ کفر پر قائم معاشرہ تو چل سکتا ہے مگر ظلم پر قائم معاشرہ نہیں جنرل پرویز مشرف نے لال مسجد کو معصوم بچیوں کے خون سے لال کردیا نتیجہ وہ اقتدار جس کے نشے میں چور ہوکر اس نے عہد فرعونیت کو دوہرایا تھا ختم ہوگیا ،سابق چند وزاءنے اقتدار کے نشے میں مست ہو کر ماڈل ٹاﺅن کے اندر نہتی خواتین کو گولیوںسے بھون دینے کا حکم دیا تھا ختم ہوگیا ۔وزیر اعظم عمران خان نے ایک نعرہ لگایا تھا کہ پاکستان کو مدینہ طیبہ کی طرز کی ریاست بنائیں گے ۔وزیر اعظم عمران آپ ہی ایمان سے بتائیں کہ مدینہ طیبہ کی ریاست ایسی تھی؟اسلام کے نزدیک ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھے کہ قانون کہیں مجروح تو نہیں ہورہا ہے ۔فرمان مصطفی ہے :امام نگران ہے۔اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا(متفق علیہ)راعی چروا اور نگران کو کہا جاتا ہے ۔مطلب یہ کہ جس طرح ایک چرواہا بکریوں کے ریوڑکا ذمہ دار ہوتا ہے اسی طرح امام بھی اپنی رعیت کاذمہ دار ہے ۔اس کی حیثیت کسی مطلق العنان بادشاہ یا جابر وقاہرحاکم کی نہیں بلکہ چروا ہے کی ہے ،جو دیکھتا رہتا ہے کہ کہیں کسی پہ ظلم تو نہیں ہو رہا اور اس کے ساتھ نا انصافی تو نہیں ہورہی ہے ۔ریاست کا فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کرتی رہے کہ کسی کا حق ضائع نہ ہونے پائے اور اسے کسی پہلو سے نقصان نہ پہنچے ۔سانحہ ساہیوال مظلوموں کو کبھی بھی انصاف نہیں مل پائے گا اس کی وجہ کہ آج تک کسی مجرم کو سزا نہیں مل سکی یہ کیا جنگل کا قانون ہے کہ یہ قانون کے محافظ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں عوام نہتے شہریوں کو سرعام گولیوں سے بھون دیتے ہیں اور پھر انڈین فلم اس کو داعش،رائ،سی آئی اے،یا پھر کسی اور دہشت گرد تنظیم کا کارکن ثابت کرنے کے لیے فرضی جھوٹے قصے کہانیاں گڑھ لیتے ہیں ایک پولیس کا اعلیٰ افسر پریس کانفرنس کرکے مرنے والے کو دنیا کا خطرناک انسان ثابت کردیتا ہے اور پھر معاملہ رفع دفع ”مجھاں مجھاں دیاں پیناں “ایک پولیس والے کو دوسرے پولیس والے کی تفشیش پر لگا دیا جاتا ہے اور واہ رے انصاف ۔ہزاروں جعلی پولیس مقابلوں میں ہزاروں کی تعداد میں ان وڈیروں ،جاگیرداروں اور انکی سیاسی مداریوں کے حکم پر ہزاروں بے گناہوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے مگر آج تک کسی مظلوم کو انصاف نہیں ملا پچھلے دنوں سبزار میں ڈولفن پولیس والوں نے سرعام ایک ذہنی مریض کو سرعام گولیاں مار کر اس ظالم جہاں آزاد کردیا ۔ایک سوال آخر یہ غریب مرنے والے ہی دہشت گرد کیوں ہوتے ہیں ؟سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ملز سے کئی راءکے ایجنٹ پکڑے گئے اس کے علاوہ اخبارات کی شہہ سرخیاں اس بات کی شائد ہیں کہ ہمارے اکثرسابق وزاءاور یقینا موجودہ کے بھی دہشتگردوں سے رابطے ہیں ۔سانحہ ساہیوال سے جہاں برائیاں ہی برائیاں سامنے آرہی ہیں وہاں پر اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ جرائم پیشہ جھوٹے اداروں کی فرضی کہانیاں لوگوں نے تسلیم کرنے انکار کر دیا ہے ۔یہ بات پورے وثوق کے ساتھ قابل تحریر ہے کہ سی ٹی ڈی کے زیر انتظام ہونے والے تمام کے تمام مقابلے (بشمول وہ مقابلے جن کی ذمہ داری سی ٹی ڈی سے قبول کروائی گئی )جعلی تھے ۔اس ملک میں ناکوں پر عام شہریوں سے چند روپوں کی خاطر انکی موٹر سائیکلیں تھانے میں بند کردی جاتی ہے جن میں پٹرول سے لیکر انجن کے مختلف پارٹس نکال لیے جاتے ہیں اور پھر ان موٹر سائیکلوں سے نمبر پلیٹس اتار کر تین تین بندے بیٹھا کر قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں سانحہ ساہیوال قانون کے محافظوں کی گاڑیوں پر نمبر پلیٹس نہیں؟؟؟وزیراعظم پاکستان ریاست مدینہزمانہ جنگ اور جہاد میں بھی اسلام اپنے نام لیواﺅں پر زور دیتا ہے کہ انسان کو اپنے اغراض ومقاصد ،کشور کشائی اور توسیع پسندی کی خاطر تہہ تیغ مت کرو بلکہ انسانوں کے تحفظ ،خوشحالی ،امن سلامتی کے لیے اور فساد کرنے والوں اور انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ﺅ۔اسلام احکام حسن سلوک ،روادری ،صبر وضبط کی تعلیم ہیں ۔اس لیے دوران جہاد بوڑھوں ،بچوں اور عورتوں کے قتل کی ممانعت کی گئی ہے ۔وزیراعظم پاکستان ریاست مدینہ کے حاکم نگران جناب محمد نے دوران جنگ عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔۔۔جناب یہ کون سی ریاست بن رہی ہے ۔آپ ریاست مدینہ کے حاکم کو کیا جواب دیں گے؟؟؟

5 thoughts on “”انصاف کا ڈرامہ ۔۔۔کمزور نشانہ “

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *