اگر عمران خان ناکام ہو گیا ، اسکی حکومت ختم ہو گئی تو پھر اگلی باری کس کی ہے ؟

لاہور (ویب ڈیسک) عمران خان کو اقتدار سنبھالے پانچ مہینے گزر گئے۔اس دوران انہوں نے خود وسط مدتی انتخابات کا عندیہ بھی دیا۔مڈٹرم انتخابات کا کہہ کر ملک میں سیاسی بھونچال آگیا تھا۔سب مشورے دے رہے تھے کہ ابھی تو اقتدار سنبھالے چند ہفتے ہوئے ہیں۔آپ کو تو پانچ سال چلنا ہے۔
نامور کالم نگار اصغر خان عسکری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔خیر جب یہ مرحلہ گزر گیاتو اب عمران خان کے بارے میں سابق بیوروکریٹ کالم نگار اور ان کے قریبی دوستوں نے لکھنا اور بولنا شروع کر دیا ہے کہ عمران خان کے پاس صرف چھ مہینے کا وقت ہے۔اگر چھ مہینوں میں وہ معاشی استحکام لانے میں ناکام ہو ئے تو پھر وہ گئے۔ عمران خان کے گرنے کے بارے میں پہلا کالم سابق بیوروکریٹ اور موجودہ کالم نگار نے لکھا۔دوسرا کالم ان کے قریبی دوست نے لکھ مارا۔تیسر ا کالم پھر اسی سابق بیوروکریٹ نے لکھ دیا کہ فاطمہ بھٹو نے لندن میں عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ سے ملاقات کی ہے۔ معاملات طے پاگئے ہیں۔سکرپٹ میں تبدیلی اب ہو نے والی ہے۔اس کے بعد عمران خان کے ایک اور قریبی دانشور دوست نے کالم لکھ مارا کہ موجودہ حکومت نکمی ہے۔ ان سے کچھ بھی نہیں ہو رہا ۔تحریری طور پر لکھنے کے بعد جب ان کا ضمیر مطمئن نہیں ہوا تو ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے اوپر لعنت بھیج کر حساب برابر کر دیا۔ عمران خان کے یہ قریبی دوست ان سے ناراض اس لئے ہیں کہ ان کو شکوہ ہے کہ پانچ مہینوں میں وہ اور ان کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر معیشت کی سمت درست نہ کرسکے۔
اقتدار میں آئے عمران خان دوسرامنی بجٹ پیش کر رہا ہے،لیکن عوام کے لئے کچھ بھی نہیں۔مو سم سرما میں بجلی کی ناروا لوشیڈنگ جاری ہے۔گیس بھی بند ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے ،جس کی وجہ سے مہنگائی روز بر وز بڑھ رہی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ادویات کو عام آدمی کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔اشیائے خور ونوش کی نر خوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔تجاوزات گرانے سے غریبوں سے ان کا روزگار چھینا جارہا ہے۔تجاوزات گرانے چاہئے ،لیکن ضروری ہے کہ لو گوں کو متبادل فراہم کیا جائے۔نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم تاحال التواء کا شکار ہے۔ ابھی تک اس سکیم کے بارے میں کوئی بھی منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی ۔ایک کر وڑ نو کریوں کا وعدہ کیا گیا تھا ،لیکن لاکھوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے۔پروٹوکول کی جس طرح مخالفت کی گئی تھی۔اس سے بڑھ کر پروٹوکول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وفاقی وزراء اور گورنر ز صاحبان ہیوی بائک سے دل بھلا رہے ہیں۔ عمران خان خوش ہے کہ ملک کے عوام کو ایوان صدر اور گورنر ہاوسز کاہفتہ وار دیدارکرایا جارہا ہے،اور کیا چاہئے اس ملک کے عوام کو۔
مزے کرے ہر اتوار کو ایوان صدر ،گورنر ہاوس لاہور،پشارو ،کراچی اور کوئٹہ کا دیدار کرے یہی ان کے لئے کافی ہے۔کل پر سوں کی بات ہے کہ وزیر اعظم ہاوس میں عارضی طور پر مقیم عمران خان کے انتہائی قریبی کالم نگار ساتھی سے ان کے دوست بودی شاہ نے ملاقات کی ہے۔ملاقات میں بو دی شاہ نے جو کچھ ان کو بتایا ہے اس کو پڑھ کر لگ رہا ہے کہ چند وفاقی وزیر اور وزیر اعظم عمران خان چند دنوں کے مہمان ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر خوش ہیں کہ معیشت کو ٹریک پر لانے میں وہ کامیاب ہوئے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی خو ش خبری سنائی ہے کہ بس چند ہی دن ہیں پھر دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی۔خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے بھی نعرہ مستانہ بلند کیا ہے کہ رواں بر س پشاور کا بی آر ٹی منصوبہ اور سوات ایکسپریس وے مکمل ہو جائے گا۔ یہ الگ بات کہ صوبائی حکومت نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں پر چی فیس 10 روپے سے بڑھا کر 30 روپے کردی ہے،جبکہ اپریل سے پر چی کی فیس 40 روپے ہو گی۔وفاقی سرکار خوش ہے ۔پنجاب ،خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے کرتا دھرتا بھی خوشی جھوم رہے ہیں۔
لیکن وزیر اعظم عمران خان کے قریبی کالم نگار دوستوں کو یہ خوشی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ ان کو اعتراض ہے کہ پانچ مہینوں میں معیشت کی بہتری کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا،اس لئے اوپر والے ناراض ہے اور اب عمران خان کی خیر نہیں۔چھ مہینوں کا وقت انہوں نے دیا ہے۔جس میں سے پانچ گز ر گئے ،صرف ایک مہینہ باقی ہے۔جو کالم نگار عمران خان کی گرنے کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں وہ ان کے قریبی دوست ہیں۔باخبر بھی ہے۔تمام ایوانوں اور اقتدار کے سرچشموں میں ان کے تعلقات ہیں۔ممکن ہے کسی نے اندر کی خبر دی ہو۔اس لئے ان کی چیخیں نکل رہی ہے۔چیخیں کیا عمران خان کی دوستی اور اپنے اوپر لعنت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کب گر ے گا؟ معاشی استحکام کیسے اور کب آئے گا؟ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ رواں بر س معاشی منصوبہ بندی کا ہے۔اگلا سال عملی اقدامات یعنی منصوبہ بندی پر عمل درآمد ،اس سے اگلا سال نتائج کا ہوگا اور اس سے اگلا احتساب کا سال ہو گا۔معاشی استحکام کے لئے وزیر اعظم عمران خان اور کی ٹیم کو کم از کم دوسال چاہئے۔اگر دوسالوں میں وہ کچھ نہ کر سکے تو پھر عمران خان گر بھی سکتے ہیں اور گرائے بھی جا سکتے ہیں۔ عمران خان کب گریں گے؟
اس سوال کا جواب وزیر اعظم عمران خان خود کئی مہینے پہلے دے چکے ہیں۔ایک ملا قات کے دوران انہوں نے خود بتایا تھا کہ وہ مڈٹرم انتخابات کی طرف جا سکتے ہیں۔اس کی دو وجوہات ہیں۔ایک کامیابی کی صورت میں کہ وہ مطمئن ہونگے کہ انہوں نے عوام کو ریلیف دیا ہے ،اس لئے ضروری ہے کہ عوام کے پاس جا یا جائے اور واضح برتری کے ساتھ بلا شرکت غیر حکومت بنا ئے تاکہ کسی سے بلیک میل نہ ہو۔ناکامی کی صورت میں بھی وہ وسط مدتی انتخابات کی طرف جاسکتا ہے ۔اس لئے کہ کسی کے گرانے سے وہ اس بات کو ترجیح دیں گے کہ خود اقتدار چھوڑ کر انتخابات کا اعلان کرے۔مجھے نہیں لگ رہا کہ عمران خان کے پاس چھ مہینے ہیں۔پانچ گز ر گئے اب ایک باقی ہے ۔اگر وہ معاشی استحکام نہ لاسکے تو پھر ان کو خدا حافظ کہا جائے گا۔نہیں،اس لئے کہ معیشت کی بہتری مہینوں نہیں بلکہ سالوں کی بات ہے۔جن پر الزام ہے کہ عمران خان کو وہ لے کر آئے ہیں وہ اس بات سے بخوبی باخبر ہے۔اس لئے وزیر اعظم عمران خان کے پاس چھ مہینے نہیں بلکہ ڈھائی بر س ہیں جس میں سے پانچ مہینے گز ر گئے ۔اب صرف دوسال باقی ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اگر وہ ان دوسالوں میں کامیاب ہوئے تو پھر مزید پانچ سال بھی ان ہی کے ہونگے۔اگر وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر میرا نہیں خیال کہ اگلی باری زرداری یا شہباز شریف کی ہو گی۔اگلی باری پھر کسی اور کی ہو سکتی ہے۔اس لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو عمران خان کی ناکامی پر خوش نہیں ہو نا چاہئے،کیونکہ اگلی باری ان کو نہیں ملنی۔ عمران خان کے قریبی کالم نگار دوستوں کو بھی مشورہ ہے کہ ابھی تھوڑا ساانتظار کریں،پیوستہ رہ شجر سے امید بہار کی طرح۔ممکن ہے گلشن میں بہار آہی جائے۔پھر آپ ہی نے چہچہانا ہے،ہم تو پھر بھی کسی کونے میں بیٹھے ہونگے۔